طرف

❗صلح امام حسن ع کے متعلق غلط فہمی

⛔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

﴿وَإِن طائِفَتانِ مِنَ المُؤمِنينَ اقتَتَلوا فَأَصلِحوا بَينَهُما فَإِن بَغَت إِحدىٰهُما عَلَى الأُخرىٰ فَقـٰتِلُوا الَّتى تَبغى حَتّىٰ تَفىءَ إِلىٰ أَمرِ اللَّهِ فَإِن فاءَت فَأَصلِحوا بَينَهُما بِالعَدلِ وَأَقسِطوا إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ المُقسِطينَ سورة الحجرات
"اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔ پھر اگر ان دونوں میں سے ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) اس گروه سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو۔ یہاں تک کہ وه اللہ کے حکم کی طرف لوٹ آئے، اگر لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرا دو اور عدل کرو بیشک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے باغیوں کے خلاف لڑنا اس وقت واجب قراردیا ہے جب تک وہ صلح پر آمادہ نہ ہوں

👈🏻امام حسن علیہ السلام نے صلح کی دعوت نہیں دی تھی بلکہ قرآن کریم کے حکم کیمطابق جب باغیی صلح کی طرف آمادہ ہوں تو ان سے صلح کرلو!
معاویہ بن ابی سفیان نے جب اتنا بڑا لشکر دیکھا تو عمرو بن العاص کو بھیجا کہ اس سے پہلے ہم ہلاک ہوجائیں صلح کی تدبیر کرو۔
⭕ان تمام جنگوں میں مولا علیؑ و امام حسنؑ ہی حق پر تھے