فط

 

محمد ابن جرير طبری (متوفی 310 ہجری) :

عن زياد بن كليب قال: أتي عمر بن الخطاب منزل عليّ وفيه طلحة والزبير ورجال من المهاجرين فقال: واللّه لأحرقنّ عليكم أو لتخرجنّ إلي البيعة»، فخرج عليه الزبير مصلتاً بالسيف فعثر فسقط السيف من يده فوثبوا عليه فأخذوه.

عمر ابن خطاب علی کے گھر کی طرف آیا کہ جہاں پر طلحہ، زبیر اور مہاجرین کا ایک گروہ جمع تھا۔ عمر نے ان سے کہا: خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے بیعت نہ کی تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا۔ زبیر ہاتھ میں شمشیر لیے گھر سے باہر آیا، اچانک اس کا پاؤں پھسلا اور شمشیر اسکے ہاتھ سے گر گئی، اسی وقت کچھ لوگوں نے اس پر حملہ کر کے شمشیر اسکے ہاتھ سے چھین لی۔

تاريخ الطبري ، ج 3 ص 202

بحث سندی:

طبری نے اس روايت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

حدثنا ابن حميد ، قال : حدثنا جرير ،عن مغيرة ، عن زياد بن كليب .

حميد ابن محمد:

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : سمعت أبي يقول : لا يزال بالري علم ما دام محمد بن حميد حيا .

عبد الله ابن احمد ابن حنبل نے کہا ہے کہ: میں نے اپنے والد کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ: جب تک محمد ابن حمید زندہ تھا، علم شہر ری میں باقی تھا۔

قال عبد الله : حيث قدم علينا محمد بن حميد كان أبي بالعسكر فلما خرج قدم أبي و جعل أصحابه يسألونه عن ابن حميد ، فقال لي : مالهؤلاء يسألوني عن ابن حميد .

قلت : قدم ها هنا فحدثهم بأحاديث لا يعرفونها . قال لي : كتبت عنه ؟ قلت : نعم كتبت عنه جزءا . قال : اعرض علي ، فعرضتها عليه ، فقال : أما حديثه عن ابن المبارك و جرير فهو صحيح ، و أما حديثه عن أهل الري فهو أعلم .

عبد الله ابن احمد ابن حنبل نے یہ بھی کہا ہے کہ: جب محمد ابن حمید ہمارے پاس آیا، تو میرے والد ایک جنگی چھاؤنی میں تھے، اور جب وہ واپس چلا گیا تو میرے والد شہر میں واپس آ گئے، تو انکے شاگردوں نے ان سے ابن حمید کے بارے میں سوال کیا تو میرے والد نے کہا: کیا ہوا ہے کہ وہ ابن حمید کے بارے میں مجھ سے سوال کر رہے ہیں ؟

میں (عبد اللہ) نے کہا: وہ یہاں آیا تھا اور انکے لیے ایسی روایات نقل کر رہا تھا کہ جو انھوں نے کبھی بھی نہیں سنی تھی، میرے والد نے کہا کہ: کیا تم نے ان سے کسی چیز کو لکھا ہے ؟ میں نے جواب دیا: ہاں، میں نے ان سے ایک کاپی پر روایات لکھی ہیں، اس نے کہا: وہ کاپی لاؤ تا کہ میں اسکو دیکھوں، اور جب اس نے دیکھا تو کہا:

اسکی ابن مبارک اور جریر سے نقل کردہ روایت صحیح ہے، اور اسکا اہل ری سے روایت نقل کرنا، وہ خود اس بارے میں بہتر جانتا ہے، (یعنی مجھے اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے)

و قال أبو قريش محمد بن جمعة بن خلف الحافظ : قلت لمحمد بن يحيي الذهلي : ما تقول في محمد بن حميد ؟ قال : ألا تراني هو ذا أحدث عنه .

ابو قريش کہتا ہے کہ میں نے محمد ابن يحيی ذہلی سے کہا کہ تمہاری ابن حمید کے بارے میں کیا رائے ہے ؟ اس نے جواب دیا: کیا تم نے نہیں دیکھا کہ میں نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے ؟

قال : و كنت في مجلس أبي بكر الصاغاني محمد بن إسحاق ، فقال : حدثنا محمد بن حميد . فقلت : تحدث عن ابن حميد ؟ فقال : و ما لي لا أحدث عنه و قد حدث عنه أحمد بن حنبل و يحيي بن معين .

۔۔۔۔۔ میں ابوبکر صاغانی محمد ابن اسحاق کی محفل میں تھا، پس اس نے کہا: محمد ابن حمید نے ہمارے لیے روایت نقل کی کہ۔۔۔۔۔ ، میں نے اس سے کہا: کیا تم ابن حمید سے روایت کو نقل کرتے ہو ؟ اس نے کہا: جب احمد ابن حنبل اور يحيی ابن معين نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے تو میں کیوں نہ کروں ؟

و قال أبو بكر بن أبي خيثمة : سئل يحيي بن معين عن محمد بن حميد الرازي فقال : ثقة . ليس به بأس ، رازي كيس .

یحیی ابن معین سے اسکے بارے میں سوال ہوا تو اس نے جواب میں کہا کہ: وہ مورد اطمینان ہے، اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، وہ بہت ذہین اور اہل ری ہے۔

و قال أبو العباس بن سعيد : سمعت جعفر بن أبي عثمان الطيالسي يقول : ابن حميد ثقة ، كتب عنه يحيي و روي عنه من يقول فيه هو أكبر منهم .

۔۔۔۔۔ میں نے جعفر ابن عثمان طيالسی کو کہتے ہوئے سنا تھا کہ: ابن حمید ثقہ ہے، یحیی نے اس سے روایت کو نقل کیا ہے اور مشہور راویوں نے بھی اس سے روایت کو نقل کیا ہے۔ ان راویوں میں وہ (احمد ابن حنبل) سب سے بڑا ہے۔

تهذيب الكمال ، ج25 ، ص100 .

جرير ابن عبد الحميد ابن قرط الضبی :

وہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہے اور اسکے ثقہ ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

و قال محمد بن سعد : كان ثقة كثير العلم ، يرحل إليه .

و قال محمد بن عبد الله بن عمار الموصلي : حجة كانت كتبه صحاحا .

محمد ابن سعد: وہ قابل اعتماد ، بہت صاحب علم تھا کہ بہت سے لوگ اسکی طرف (حصول علم کے لیے) سفر کیا کرتے تھے۔

۔۔۔۔۔ وہ قابل استناد تھا کہ اسکی تمام کتب صحیح تھیں۔

تهذيب الكمال ، ج4 ، ص544 .

مغيرة ابن مقسم ضبی :

وہ بھی صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے راویوں میں سے ہے۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

عن أبي بكر بن عياش : ما رأيت أحدا أفقه من مغيرة ، فلزمته .

و قال أحمد بن سعد بن أبي مريم ، عن يحيي بن معين : ثقة ، مأمون .

قال عبد الرحمن بن أبي حاتم : سألت أبي ، فقلت : مغيرة عن الشعبي أحب إليك أم ابن شبرمة عن الشعبي ؟ فقال : جميعا ثقتان .

و قال النسائي : مغيرة ثقة .

ابوبکر عیاش: میں نے کسی کو مغیرہ سے دانا تر نہیں دیکھا کہ جسکے ساتھ ہونے کو میں پسند کرتا۔

یحیی ابن معین: وہ قابل اطمینان اور امانت دار ہے۔

ابن ابی حاتم: میں نے اپنے والد سے سوال کیا کہ کیا آپکے لیے مغیرہ کا شعبی سے روایت نقل زیادہ محبوب ہے یا شبرمہ کا شعبی سے روایت نقل کرنا ؟ جواب دیا کہ: ہر دو قابل اطمینان ہیں۔

نسائی : مغيره مورد اطمينان ہے۔

تهذيب الكمال ، ج28 ، ص400 .

زياد ابن كليب :

وہ بھی صحیح مسلم، ترمذی وغیرہ کے راویوں میں سے ہے۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

قال أحمد بن عبد الله العجلي : كان ثقة في الحديث ، قديم الموت .

و قال النسائي : ثقة .

و قال ابن حبان : كان من الحفاظ المتقنين ، مات سنة تسع عشرة و مئة .

عجلی: وہ روایت نقل کرنے میں قابل اطمینان تھا لیکن وہ جلدی دنیا سے چلا گیا تھا۔

نسائی: وہ قابل اعتماد ہے۔

ابن حبان: وہ ثابت قدم حفاظ میں سے تھا کہ جو سن 109 ہجری میں وفات پا گیا تھا۔

تهذيب الكمال ، ج9 ، ص506 .