بسم ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﻴﻦ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺧﻴﺮ ﺧﻠﻘﻪ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﺑﺮﻳﺘﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻋﺘﺮﺗﻪ ﺍﻟﻄﺎﻫﺮﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻌﻦ ﺍﻟﺪﺍﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻋﺪﺍﺋﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺪﻳﻦ،

×کیا فرشتوں نے اللہﷻ کو ڈانٹا× (نعوذ باللہ)

~ نواصب کی تہمت کا جواب~

ہمیں ایک برادر نے لنک شیئر کیا جس میں
"انصار السنہ" نامی شخص نے شیعانِ حیدرِ کرار علیہ السلام پر یہ اعتراض کیا ہے کہ معاذ اللہ شیعوں کی کتاب میں لکہا ہوا ہے کہ "فرشتوں نے خدا کو ڈانٹا ہے"۔
ہم پہلے ان کا کلام نقل کرتے ہیں پہر جواب

چناچنہ انصار صاحِب لکھتے ہیں::

نعوذ باللہ فرشتوں نے اللہ تعالی کو ڈانٹا!!!

کیا یہ صریح کفر نہیں فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے؟

مصنف لکھتا ہے:
عاشوراء کے دن فرشتے اللہ کے پاس ہواس باختہ ہو کر آئے اور کہا:
اے اللہ تو دیکھ رہا ہے کہ تیرے ولی فاطمہ زہراء کے بیٹے کے ساتھ کیا ہوا اور تو یہاں خاموش کھڑا ہے "استغفراللہ"
[مقامات الامام المہدی: ٤٥]

اب اگر ان رافضی کھٹملوں پر کوئی کفر کا فتوی لگائے تو یہ رونا شروع کر دیتے ہیں، جب بندے کے کرتوت ہی کافروں والے ہوں تو پھر اس کو رونا تو نہیں چاہیئے؟

۞الجواب ۞

معزز سامئیں دراصل یہ اصل روایت نہیں جس کو ہائیلائٹ کیا گیا ہے بلکہ اصل روایت کچھ اور ہے اور مؤلف نے جس رنگ میں اس کو پیش کیا وہ ان کا اپنا خطابت کا طریقہ تھا کیونکہ یہ تصنیف کتابی نہیں بلکہ تقاریر کا مجموعہ ہے
جس میں دقت سے الفاظ کافی مرتبہ نقل نہیں کئے جاتے بلکہ صرف مفہوم پر اکتفاء کیا جاتا ہے اور جو اخذ شدہ مفہوم ہوتا ہے وہ واقعتہ روایت کے مطابق ہوسکتا ہے اور کبھی اس سے تھوڑا ہٹ کر۔

چنانچہ اعتراض مسلک شیعہ پر جب ہوتا جب کسی معتبر مقبول روایت میں یہ مفہوم وارد ہوتا جب کہ ایک قول ایک آدمی کا وہ کس طرح پورے مذھب کی ترجمانی کرسکتا ہے۔

علی کل حال یہ روایت اصلاً امام باقر علیہ السلام
سے منقول ہے
(جس کا حوالہ بھی اس کتاب کے حاشیہ میں اس بات کو کہہ کر دیا گیا ہے):

آقائے صدوق علیہ الرحمہ لکھتے ہیں::

قال: لما قتل جدي الحسين عليه السلام ضجت عليه الملائكة إلى الله تعالى بالبكاء والنحيب وقالوا: إلهنا وسيدنا أتغفل عمن قتل صفوتك وابن صفوتك وخيرتك من خلقك، فأوحى الله عز وجل إليهم قروا ملائكتي فوعزتي وجلالي لانتقمن منهم ولو بعد حين، ثم كشف الله عز وجل عن الأئمة من ولد الحسين " ع " للملائكة فسرت الملائكة بذلك فإذا أحدهم قايم يصلى فقال الله عز وجل بذلك القائم انتقم منهم.

امام علیہ السلام فرماتے ہیں::
کہ جب میرے جدؑ کو قتل کیا جارہا تھا تو اس وقت ملائکہ زور زور سے چیخ کر رونے لگے اور انہوں نے کہا اے ہمارے خدا ہمارے سردار کیا تو غافل ہے کہ جو تیرے خاص بندے (حسین علیہ السلام ) جو فرزند ہے تیری سب سے پسندیدہ اور خاص خلقت کے، تو اللہ نے ان فرشتوں کی طرف وحی کی کہ میری عزت اور جلال کہ قسم کہ میں ان سب سے انتقام لوں گا چاہے کچھ وقت بعد۔ اور اس کے بعد اللہ نے امام حسین علیہ السلام کی اماموں والی اولاد میں سے ایک کو منکشف کیا فرشتوں کے لئے جس کو دیکھ کر فرشتہ خوش ہوئے چنانچہ وہ شخص نماز کھڑے ہوکر ادا کررہا تھا، اللہ عزوجل نے کہا یہی قائم (امام زمانہ علیہ السلام ) جن کے توسط سے میں ان قاتلین امام حسین علیہ السلام سے بدلہ لوں گا۔

حوالہ: [ علل الشرائع للصدوقؒ جلد ١ ص ١٦٠]

تبصرہ: ادھر ملائکہ کا اللہ تعالیٰ سے سوال کرنا اس ہی قبیل کا تھا جو خلقت آدم علیہ السلام کے وقت فرشتوں نے پوچھا تھا جس کا تذکرہ قرآن مجید میں یوں آیا ہے :

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ

پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ "میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں" انہوں نے عرض کیا: "کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں" فرمایا: "میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے"

[ سورہ بقرہ ٣٠ ترجمہ مودودی]

اس جیسی آیت پر بھی کیا معترض اسٹیکر اور اسکین صفحات بنائیں گے؟
دیکھیں سوال اس وجہ سے کیا گیا تھا تاکہ حکمت الہی کا انکشاف ہو نہ کہ خدا پر اعتراض وارد کیا جارہا تھا اس انداز سے کہ گویا خدا کے کام میں کچھ نقض تھا تو اس کا ازالہ ضروری تھا۔ علامہ ابن کثیر فرشتوں کے اس طرز کے بارے میں لکھتے ہیں :

، وإنما هو سؤال استعلام واستكشاف عن الحكمة في ذلك

یہ فرشتوں کا سوال دراصل کسب علم اور انکشاف حکمت کے لئے تھا۔

حوالہ: [ تفسیر ابن کثیر جلد ١ ص ٢١٦ ۔ اُردو ص ١٢٨ ]

عربی کتاب لنک:
https://ia802808.us.archive.org/29/items/43005PDF/tqa1.pdf

تبصرہ: اگر سوال ملائکہ کے رونے پر ہے تو اس میں کیا اشکال اور کیا عقلی قباحت ہے اور اگر ہے تو بتائی جائے؟ کیا یہی فرشتوں نے آکر جنگ بدر میں مسلمانوں کی مدد نہ کی تھی؟
چنانچہ اگر کچھ انسانی وظائف میں وہ ان کے شریک ہوجائیں تو اس میں عقلی قباحت کیا، ایک روایت جو سنداً مرسل ہے اس میں ایک شخص کے رونے کی وجہ سے الفاظ روایت یوں ہیں::

وذلك أن الملائكة تبكي وتدعو له وتقول

اور ملائکہ اس حالت کو دیکھ کر روئے اور دعا گو ہوئے اور فرمایا۔۔۔۔۔

حوالہ: [کنر العمال جلد ٣ ص ١٤٩ رقم روایت ٥٩١٣]

فائنل کمنٹ: خدا سے سوال کرنا اس پر اعتراض نہیں بلکہ کبھی انکشاف حکمت کے لئے ہوتا ہے اور ملائکہ کا کچھ انسانی افعال میں شریک ہونا یہ بھی ثابت شدہ ہے۔ اس پر اعتراض کرنا محض لغو ہے۔

تحریر:: آقائے خیر طلب الزیدی حفظ اللہ تعالیٰ
ترتیب و پیشکش :: احقر عبداللہ صدیقی