بسم ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ
ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﻴﻦ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺧﻴﺮ ﺧﻠﻘﻪ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﺑﺮﻳﺘﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻋﺘﺮﺗﻪ ﺍﻟﻄﺎﻫﺮﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻌﻦ ﺍﻟﺪﺍﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻋﺪﺍﺋﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺪﻳﻦ،

×امام حسین علیہ السلام اور ان کے اصحاب کے قاتلین پر تبصرہ×

ناظرین مخالفین مذہب حقہ عموماً محرم کی تواریخ میں یہ پروپیگنڈا بڑے زور و شور سے کرتے ہیں کہ شیعہ حضرات نے امام حسین علیہ السلام کو خطوط لکھے اور انہوں نے بلاکر امام حسین علیہ السلام کو شہید کیا اور اب شیعہ جو غم مناتے ہیں وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے کرتے ہیں۔ چنانچہ ان امور میں کچھ چیزوں سے وہ اجمالا سہارا لیتے ہیں:

=١= ☜اہل کوفہ نے خطوط لکھے اور اہل کوفہ شیعہ تھے اور یہی اہل کوفہ ہی تھے جنہوں نے حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام کی بیعت کی اور بیعت کو توڑا۔ حضرت مسلم بن عقیل علیہ السلام نے ان کی بے وفاہی کی شکایت کی۔ یہی وہ کوفی تھے جن سے امام حسین علیہ السلام یوم عاشورا نالا تھے،
اور بعد از کربلا امام زین العابدین علیہ السلام
حضرت زینب سلام اللہ علیہا حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا حضرت فاطمہ بنت حسین سلام اللہ علیہا نے ان کے خلاف احتجاج کیا۔

=٢=☜بعض تاریخی کتب میں یوں وارد ہوا کہ امام حسین علیہ السلام نے قتل مسلم بن عقیل علیہ السلام کے بعد کہا کہ ہمارے شیعوں نے خذلان کیا۔

=٣=☜ یہی شیعہ تھے جنہوں نے توابون کی تحریک شروع کی چنانچہ جب انہوں نے گناہ قتل امام حسین علیہ السلام کو انجام دیا تو اس قتل کے بعد پشیمان ہوئے اور انہوں نے اس کے تدارک کے لئے اس تحریک کو جاری کیا۔

=٤=☜ شمر بھی شیعہ تھا اور اس نے غداری کرکے امام حسین علیہ السلام کو مارا، چنانچہ ثابت ہوا شیعہ ہی قاتل تھے

جوابات:

ناظرین ان تمام نکات پر اگر تفصیلی کلام کیا جائے تو ایک لمبی تحریر منصف شہود پر آسکتی ہے، مختلف علماء شیعہ نے اس پر کلام کیا ہے اور جوابات دئے ہیں
چنانچہ ان مطولات کو ملاحظہ کیا جائے، لیکن ہم کچھ مختصر نکات سامنے رکھتے ہیں۔ اور نکتہ در نکتہ کلام کرتے ہیں

۞پہلا نکتہ کا جواب۞

اہل کوفہ جس طرح موجودہ زمانہ میں کراچی اور لاہور ہیں ویسا ایک میٹروپلیٹن شہر تھا جس میں جملہ اعتقاد رکھنے والے افراد آباد تھے، ان میں کچھ شیعہ امامی بھی تھے
(جومذھبی عنوان سے مخالفین کے نزدیک روافض مشہور ہیں)
اچھی خاصی تعداد اہلسنت اعتقاد رکھنے والی تھی، کچھ نواصب بھی تھے اور کچھ خوارج بھی۔ چنانچہ اہل کوفہ میں سے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا ان میں بھی بعض خاص شیعہ موالین تھے جو مذہبی اعتقاد کے مطابق امام حسین علیہ السلام کو منصوص من اللہ اور خلافت الہی کا حقدار جانتے تھے، اکثر حضرات اہلسنت معتقدات کے حامل تھے جنہوں نے لکھا جو ابوبکر، عمر، عثمان اور امیر المؤمنین علیہ السلام کی خلافت بالترتیب کو صحیح جانتے تھے البتہ وہ بنو امیہ کے ظلم سے پریشان تھے اور معاویہ جس نے نخیلہ (کوفہ سے قریب) کے مقام پر اعلان کیا تھا کہ اس نے اہل کوفہ سے جنگ نماز، روزے، حج، زکات وغیرہ کے پرچار کے لئے نہیں کی بلکہ ان پر حکومت کرنے کے لئے کی ہے جب کہ اہل کوفہ اس زبردستی ٹھوسی حکومت کو سخت ناپسند کرتے تھے

[المصنف لابن ابی شیبہ جلد ٦ ص ١٨٧]

اور اس کے بعد مغیرہ اور ما بعد زیاد نے اہل کوفہ میں سے بعض پر ظلم کے پہاڑ توڑے جس پر عموماً اہل کوفہ ناراض تھے۔ انہی خط لکھنے والوں میں سے بعض دشمنان اہلبیت علیہ السلام کی فکر کے حامل افراد بھی تھے جیسے حجار بن ابجر و شبث بن ربعی وغیرہ لیکن ان کے خط لکھنے کا مقصد سیاسی تھا،
کہ ایک کوفہ میں یزیدیت کے خلاف آواز اٹھی ہے تو بھی اس میں سیاسی فائدے کے لئے شامل ہوجائیں یا ایک سازش تھی تاکہ امام علیہ السلام کو گھیر کر قتل کیا جائے
بہرحال مقصد جو بھی تھا تاریخی لحاظ سے ان کا خط لکھا جانا مختلف کتب میں موجود ہیں
اور عاشورا کے دن بھی امام علیہ السلام نے ان سے خطاب کرکے ان کی مذمت کی تھی۔ اب جب کوفہ کی تاریخ دیکھی جائے تو اس کو آباد کرنے والے بھی عمر تھے اور پھر ما بعد عمر کی طرف سے سعد بن ابی وقاص گورنر بنے پھر عثمان آیا اور اس نے ولید کو گورنر مقرر کیا۔۔ ما بعد امیر المؤمنین علیہ السلام کا مختصر زمانہ آیا لیکن اس میں بھی جنگیں کافی ساری ہوئیں اور مولا علیہ السلام نے جب چاہا کہ ریفارم کے تحت بعض بدعات کو بند کریں تو یہی اہل کوفہ عمر کی سنت کے دفاع کے لئے کھڑے ہوگئے، پھر امام حسن علیہ السلام کا مختصر دور جب صلح پر ختم ہوا تو معاویہ کا زمانہ آتا ہے اور مغیرہ اور زیاد کے ذریعہ وہ اپنی ناصبیانہ پروپیگنڈا کا اجرا کرتا گیا اور مولا علی علیہ السلام پر لعنت کرواتا یہاں تک کہ زیاد کے ذریعہ سے کافی سارے شیعوں کا قتل کرایا گیا اور اہل کوفہ میں بقول ابن زیاد کے سوائے ہانی بن عروہ اور حجر بن عدی کے کوئی شیعہ باقی نہیں رہا اور حجر بن عدی علیہ السلام کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ تاریخ میں موجود ہے

اور ہانی کو بھی شہید کردیا گیا تو اہل کوفہ میں دراصل حقیقی شیعہ آٹے میں نمک کے برابر تھے جو کالمعدوم تھے تاریخی شہادات کے تحت اور کوفہ کی اکثر تعداد چار خلفاء کی خلافت کو صحیح جاننے والی اور بعض نواصب و خوارج بھی تھے، چنانچہ ان اقل القلیل شیعہ امامی حضرات کے ساتھ ساتھ اکثریت نے بھی خط لکھے لیکن جب موقع آیا کہ مدد کی جاتی تو اس وقت پلٹ گئے اور سبب قتل بنے۔ کیا یہ وہی قاتلین کا گروہ نہیں جس نے صحابی امام حسین علیہ السلام حضرت بریر الہمدانی علیہ السلام کی عین مقابلہ کے وقت مذمت کی کہ وہ عثمان اور معاویہ کو برا جانتے تھے اور امیر المؤمنین ع کو اپنا امام مانتے تھے، کیا یہ وہی قاتلین کا گروہ نہیں جس نے عثمان کی مزعوم مظلومیت کی یاد میں امام حسین علیہ السلام پر پانی کو بند کیا، کیا یہ وہی قاتلین کا گروہ نہیں جو جب نافع بن ہلال الجملی صحابی باوفا سے جنگ کے لئے عاشورا کے دن آیا تو ان کا مبارزہ کہ امیر المؤمنین علیہ السلام کے دین پر ہے، میں جواب میں کہا ہم عثمان کے دین پر ہے، کس طرح ایک شیعہ امامی سے تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ عثمان سے محبت بھی کرے چہ جائینکہ ان کو اپنا مذہبی پیشوا تسلیم کرے، چنانچہ یہ سارے حقائق بتاتے ہیں کہ اہل کوفہ جن کی مذمت وارد ہوئی ہے وہ شیعہ نہ تھے بلکہ وہ گروہ تھے جنہوں نے امام حسین علیہ السلام کو بالفعل قتل کیا اور اگر کسی شیعہ کو تصور بھی کریں کہ وہ قتل حسین علیہ السلام میں شریک بھی ہوا تو وہ شیعہ ہی نہ رہا بلکہ جہنمی کافر ہوگیا جس طرح رسول ﷺ کی بیوی قتیلہ بنت قیس مرتد ہوگئی تھی تو اگر اس کا ارتداد اس کے ماضی والے اسلام کا فائدہ نہیں دیتا تو قتل حسین علیہ السلام بھی کسی تشیع اور اسلام کا فائدہ نہیں دیتا۔
۞دوسرے نکتہ کا جواب۞

ناظرین یہ بات ذہن میں رہے کہ لفظ شیعہ دو طرح استعمال ہوتا تھا، ایک مذھبی عنوان سے جس کا اطلاق امیر المؤمنین علیہ السلام کو منصوص ماننے والوں پر ہوتا ہے اور دوسرا سیاسی اطلاق تھا جو ایسے حضرات پر بھی ہوتا تھا جو مولا علی علیہ السلام کو چوتھا خلیفہ برحق تسلیم کرتے تھے ابوبکر، عمر اور عثمان کے بعد لیکن جنگ جمل، صفین اور نہروان میں امیر المؤمنین علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ چنانچہ اس زمانہ میں بقول اہلسنت امت مسلمہ دو مشہور پارٹیوں میں منقسم تھی شیعان علی اور شیعان عثمان۔ تو شیعان علیؑ میں وہ افراد بھی تھے جو ابوبکر اور عمر حتی عثمان تک کو مولا علی علیہ السلام سے افضل سمجھتے

[منھاج السنتہ جلد ٤ ص ١٣٢]

اور نتیجہ کے طور پر ان کی خلافت کو صحیح جانتے تھے اور بقول شاہ عبدالعزیز دہلوی کے شیعہ کے لقب کو سب سے پہلے انصار اور مہاجرین نے اختیار کیا تھا اور یہی مخلصین شیعان اولیٰ تھے

[تحفہ اثنا عشری باب اول ص ٥٣]

جب ہی ابن حجر عسقلانی کے بقول متقدمین کے نزدیک ابوبکر اور عمر کو افضل ماننااور امام علی علیہ السلام کو عثمان سے افضل جاننا یہ تشیع کا مفہوم تھا

[تہذیب التہذیب جلد ١ ص ٩٤ تحت ابان بن تغلب]

لہذاء اگر کہی کسی روایت میں جو بذات خود متکلم فیہ روایت ہے میرے نزدیک آیا بھی ہے تو اس سے یہ پالیٹیکل قسم کے شیعہ مراد ہیں جو شیخین کی خلافت کے قائل تھے جب کہ کوئی شیعہ بھی ابوبکر اور عمر کی خلافت کو برحق نہیں مانتا۔

۞تیسرے نکتہ کا جواب۞

ناظرین توابین کی تحریک کے جو سرکردہ افراد تھے ان کا افسوس امام حسین ع کو قتل کرنا نہیں بلکہ ان کی نصرت نہ کرنا ہے اور اس عدم نصرت کی وجہ سے ان کو شرمندگی ہوئی اور انہوں نے قیام کیا۔ یاد رہے ہمارا کلام اس تحریک توابین کے سرکردہ افراد کے حوالے سے مثل سلیمان بن صرد وغیرہ۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس تحریک کے سرکردہ فرد سلیمان بن صرد الخزاعی تو اہلسنت کے نزدیک بالاتفاق عظیم صحابی ہے تو یہ اعتراض تو صحابی پر وارد ہوتا ہے کہ بھلا اس نے امام حسین علیہ السلام کو قتل کیا اور پھر تائب ہوکر تحریک شروع کی یعنی یہ سوال تو ہمارا بنتا ہے، کیونکہ شیعہ تو اصحاب کی عدالت کے قائل نہیں، اہلسنت ہیں تو ذرا جواب دیں۔ تیسری بات توابین کے دوسرے سرکردہ افراد جیسے رفاعہ بن شداد وغیرہ اہلسنت کے نزدیک مورد اعتماد ہیں تو کیا اہلسنت ایسے حضرات سے اپنا دین لیتے ہیں جو قتل امام حسین علیہ السلام میں شریک تھے، یہ کہلوانا کیا انہیں اچھا لگے گا؟ باقی ہمارا نکتہ نگاہ یہ ہے کہ ہمیں فردا فردا اس زمانہ کے تفصیلی حالات اور توابین کے ہر شخص کا اس میں کیا کردار رہا معلوم نہیں، اتنا ضرور ہے جب یزید نے گورنر کوفہ نعمان بن بشیر کو معزول کیا اور ان کی جگہ عبیداللہ بن زیاد کو مقرر کیا تو اس نے آتے ہی کوفہ میں عجیب خوف کا عالم نافذ کیا، یہاں تک کہ کوفہ کے آس پاس ناقہ بندی کی گئی، کوفہ کے بڑوں کو بلاکر ان کو حکم دیا کہ وہ اپنے ما اثر حلقہ میں حکومت کی اطاعت اور فرمانبرداری پر زور دیں اور مسلم بن عقیل ع سے الگ ہوجائیں۔ اور اس ہی دوران اس نے مخلصین تشیع کو گرفتار کرنے کی تحریک شروع کی اور کافی سارے شیعوں کو پابند سلاسل کیا، اس کی ایک مثال ایک شخص جن کا نام عبد الاعلی بن یزید تھا جو مسلم کی مدد کرنا چاہتے تھے ان کو پابند سلاسل کیا۔ اسی طرح مختار تک کے لئے بھی ملتا ہے کہ انہیں قید کیا گیا۔ چنانچہ یوں مخلصین تشیع کو قید کرکے امام حسین علیہ السلام کی نصرت سے روکا گیا چنانچہ وہ اس وجہ سے مدد نہ کرسکے، اور اگر مان لیا جائے کہ جان بوجھ کر خوف اور سستی کی وجہ سے انہوں نے مدد نہ کی تو بہرحال یہ فعل ان کا بہت بڑا جرم ہے اور شیعوں اس کی حمایت نہیں کرتے لیکن پھر بھی ایک قاتل کا قتل کرکے پشیمان نہ ہونا اور دوسرے کا مدد نہ کرکے پشیمان ہوکر تائب ہوکر توابین میں آنا دونوں زمین و آسمان کے فرق جتنا ہے۔ پھر سارا کوفہ ہی قاتل نہ تھا بلکہ امام علیہ السلام کے تقریبا بنو ہاشم سے باہر جانثار کوفی تھے اور بہت کم بصری تھے۔ بریر ہمدانی ہوں، زہیر بن قین ہوں، عابس الشاکری ہوں، شوذب ہوں، یا حبیب ہوں یہ فرسان میدان کوفی تھے، اللہ تعالیٰ ان کوفی شہیدوں پر لاکھوں رحمتوں کا نزول کرے۔

جواب: ناظرین شمر کو شیعہ کہنا اتنا ہی بڑا سفید جھوٹ ہے جتنا میں کہوں کہ معاویہ شیعہ تھا یا علامہ مجلسی سنی تھے۔ شمر کا امیر المؤمنین علیہ السلام کے ساتھ صفین میں جنگ لڑنا کہا ثابت کرتا ہے کہ وہ شیعوں میں سے تھا اگر شمر کا صرف فوج امیر المؤمنین ع میں ہونا شیعت کی علامت ہے تو پھر حضرت عمار یاسر علیہ السلام جو اہلسنت کے نزدیک عظیم صحابی ہے وہ بھی شیعی رافضی ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ خود اہلسنت جس بات کو صحیح تسلیم نہیں کرتے اس دلیل کو اجرا ہم پر کس عنوان سے کرتے ہیں۔ ناظرین ہم نے بڑے تفصیل سے پالیٹیکل شیعہ اصطلاح کے بارے میں بتایا، چنانچہ شمر بھی پالیٹیکلی مولا علی علیہ السلام کی فوج میں تھا لیکن ما بعد خوارج سے جاملا اور اس کے بعد قتل امام حسین علیہ السلام میں شریک ہوا۔ اور ناظرین ہم شمر کے حوالے سے کافی تفصیل سے لکھ سکتے ہے لیکن اتنا بتاتے چلیں کہ جس خلیفہ کی اطاعت میں اس نے یہ ظلم کیا یہ خلیفہ کی اطاعت والا عقیدہ ان کی عقائد اور فقہ کی کتب میں موجود ہے۔ ہم شمر پر بے شمار لعنت کرتے ہیں، آپ بھی شمر پر اور شمر سے آگے بڑھ کر حاکم وقت یزید پر اور اس سے بڑھ کر یزید کو مقرر کرنے والے طاغی شام پر بھی لعنت کیجئے اور محبت اہلبیت علیہ السلام کا ثبوت دیجئے۔

فائنل کمنٹ: ناظرین ہم نے تحریری صورت میں یہ معروضات لکھیں ہیں اور حوالے جات اتنے نہیں لگائے لیکن تمام حوالے جات محفوظ ہیں، اگر ضرورت ہوئی تو ضرور پیش کئے جائیں گے۔

تحریر خاک پائے اہلبیتؑ:: آقائے خیر طلب الزیدی حفظ اللہ تعالیٰ
ترتیب:: خاکسار عبداللہ صدیقی
دعاگو:: ہادی نقوی

https://www.facebook.com/109154677395362/posts/176293257348