عدالت صحابہ، اہل سنت کی اکثریت کا نظریہ ہے جس کے تحت وہ پیغمبر اکرمؐ کے تمام اصحاب کو عادل اور اہل بہشت سمجھتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ اصحاب کے اوپر تنقید اور اعتراض کو جائز نہیں سمجھتے اور ان کی احادیث کو بغیر کسی جرح و تعدیل کے قبول کرتے ہیں۔ شیعہ اور اہل سنت کے بعض علماء اصحاب رسول خداؐ کو بھی باقی مسلمانوں کی طرح    قرار دیتے ہوئے اس نظریے کو رد کرتے ہیں۔ جن میں بڑے باعظمت و صاحب وکرامت اصحاب سے لے کر ہر درجے کے لوگ شامل ہیں ۔۔۔۔۔۔

عدالت صحابہ کے نظریے کے حامی حضرات اپنے مدعا پر قرآن کی آیات اور پیغمبر اکرمؐ کی احادیث سے استدلال کرتے ہیں، من جملہ ان دلائل میں سے ایک آيت رضوان ہے جس میں صحابہ پر خدا کے راضی ہونے کی بات آئی ہے۔ ان کے مقابلے میں اس نظریے کے مخالفین مذکورہ آیت کو صرف ان بعض اصحاب کے ساتھ مختص قرار دیتے ہیں جو بیعت رضوان میں حاضر تھے اور اس کے بعد بھی اپنے عہد و پیمان پر باقی رہے ہوں۔ اسی طرح اس نظریے کے مخالفین کے مطابق یہ نظریہ قرآن کریم کی ان متعدد آیات کے ساتھ بھی سازگار نہیں ہے جن میں صحابہ کے درمیان منافقین کی موجودگی سے متعلق گفتگو ہوئی ہے۔ اسی طرح اس نظریے کے رد میں بعض صحابہ کے مرتد ہونے، شراب پینے، حضرت علیؑ کو لعن طعن کرنے، مسلمانوں کو قتل کرنے اور ان پر لشکرکشی کرنے جیسے اعمال کو بھی پیش کیا جاتا ہے۔

امام مسلم نے اپنی صحیح میں ایک حدیث نقل کی ھیں :

5875 – حضرت انس ابن مالک رسول اللہ صلی علیہ وآل وسلم سے روایت کرتے ھیں کہ قیامت کے دن چند لوگ میرے پاس آنے کی کوشش کریں گے جو (دنیا میں) میرے ساتھی رھے تھے جب میں ان کو دیکھوں گا اور میرے سامنے ھونگے تو انہیں کچھ فاصلے پر میرے پاس آنے سے روک لیا جائے گا ,میں کہونگا, اے میرے پروردگار ! یہ میرے ساتھی ھیں ! یہ میرے ساتھی ھیں! ,تو مجھ سے کہاجائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا نیا (دین اختیار) کیا

حوالہ :صحیح مسلم / جلد 3 / صفحہ : 240 / حدیث : 5875

اس حدیث کو امام بخاری , امام ابو داود , امام ترمذی, امام ابن ماجہ , امام دارمی , امام احمد , امام ابن حبان , امام حاکم نیسابوری , امام طبرانی , امام ابو یعلی الموصلی نے بھی نقل کیا ھیں

اب کچھ اھل سنت حضرات اس میں یہ اعتراض کرتے ہے کہ یہاں لفظ ” اصحاب ” سے مراد پوری امت ہے نہ کہ رسول اللہ صلی علیہ و آلہ کے اصحاب . یہ تاویل خود ہی باطل ہے کیونکہ حدیث میں صریح طور پر ” اصحابی ” کا لفظ آیا ہے ..اور اگر انکی ہی تاویل درست مانی جائے پھر جو بھی روایات انکی کتب میں اصحاب کے فضائل کے باب میں ورد ہوئی ہے وہاں اصحاب سے مراد تمام امت ہی ہونگی لہذا وہاں ان تمام فضائل صحابہ  سے ہاتھ دھونا پڑھیں گے۔

   سارے صحابہ کے عادل یا قابل اتباع جیسے عقیدے کی نفی نہ صرف قرآنی آیات ہی سے ثابت ہے بلکہ احادیث نبوی اور اسکے بعد قرائن کا مطالعہ اور تدبر سب کر سکتے ہیں۔ کچھ احادیث و قرانی آیات سے استفادہ ۔۔۔۔

 

مثال کے طور پر مفسرین کے مطابق آیت نبأ میں ارشاد ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ(ترجمہ: اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تحقیق کر لیا کرو کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی میں نقصان  پہنچا دو اور پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ۔)  یہ آیت ولید بن

عقبہ کے بارے میںنازل ہوئی ہے جو صحابہ میں سے تھے

سورہ النساء 137 

اِنَّ الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا ثُـمَّ كَفَرُوْا ثُـمَّ اٰمَنُـوْا ثُـمَّ كَفَرُوْا ثُـمَّ ازْدَادُوْا كُفْرًا لَّمْ يَكُنِ اللّـٰهُ لِيَغْفِرَ لَـهُـمْ وَلَا لِيَـهْدِيَـهُـمْ سَبِيْلًا (137)

بے شک وہ لوگ جو ایمان لائے پھر کفر کیا پھر ایمان لائے پھر کفر کیا پھر کفر میں بڑھتے رہے تو اللہ ان کو ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ انہیں راہ دکھائے گا۔