ڈس

بسم ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ
ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﻴﻦ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺧﻴﺮ ﺧﻠﻘﻪ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﺑﺮﻳﺘﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻋﺘﺮﺗﻪ ﺍﻟﻄﺎﻫﺮﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻌﻦ ﺍﻟﺪﺍﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻋﺪﺍﺋﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺪﻳﻦ،

کیا آئمہ علیہ السلام کے اصحاب مرتد تھے؟[نعوذباللہ]
نواصب کے اعتراض کا جواب

ذی وقار احباب ہمارے ایک دوست نے فیس بوک پر بخاری شریف کی ایک حدیث شیعر کی جوکہ حدیث حوض کے نام سے مشہور ہے، اس کے جواب مین ایک ناصبی نے ضعیف روایت سے استدلال کرنے کی کوشش کی،

پہلے آپ وہ حدیث ملاحظہ فرمائیں پہر اس کا جواب

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ : أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ ابْنِ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّهُ كَانَ يُحَدِّثُ ، عَنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ : يَرِدُ عَلَى الْحَوْضِ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِي فَيُحَلَّئُونَ عَنْهُ ، فَأَقُولُ : يَا رَبِّ ، أَصْحَابِي ، فَيَقُولُ : إِنَّكَ لَا عِلْمَ لَكَ بِمَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ ، إِنَّهُمُ ارْتَدُّوا عَلَى أَدْبَارِهِمُ الْقَهْقَرَى ، وَقَالَ شُعَيْبٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، كَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ ، يُحَدِّثُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : فَيُجْلَوْنَ ، وَقَالَ عُقَيْلٌ : فَيُحَلَّئُونَ ، وَقَالَ الزُّبَيْدِيُّ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي رَافِعٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”حوض پر میرے صحابہ کی ایک جماعت آئے گی۔ پھر انہیں اس سے دور کر دیا جائے گا۔ میں عرض کروں گا میرے رب! یہ تو میرے صحابہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تمہیں معلوم نہیں کہ انہوں نے تمہارے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کر لی تھیں، یہ الٹے پاؤں ( اسلام سے ) واپس لوٹ گئے تھے۔“

[صحیح بخاری حدیث نمبر ٦٥٨٦]

اس کے جواب میں
ایک صاحب [علی المعلمی] نے روضة الکافی کے حوالے سے اعتراض نقل کیا کہ آپ اسکرین شاٹ میں دیکھ سکتے ہیں

الجواب ::

پیش کردہ روایت ملاحضہ فرمائیں

وبهذا الاسناد، عن محمد بن سليمان عن إبراهيم بن عبد الله الصوفي قال: حدثني موسى بن بكر الواسطي قال: قال لي أبو الحسن (عليه السلام)

لو ميزت شيعتي لم أجدهم إلا واصفة ولو امتحنتهم لما وجدتهم إلا مرتدين ولو تمحصتهم لما خلص من الألف واحد ولو غربلتهم غربلة لم يبق منهم إلا ما كان لي إنهم طال ما اتكوا على الأرائك، فقالوا: نحن شيعة علي، إنما شيعة علي من صدق قوله فعله

[روضة الكافي الجزء ٨ ص ١٢٤]

اولاً :: اس روایت کی سند قابل اعتماد نہیں ہے ۔

چنانچہ اس کی تفصیل درج ذیل ہے::

ابراھیم بن عبداللہ الصوفی اس راوی کی توثیق کسی شیعہ کتب رجال میں نہیں ملتی بلکہ یہ روای مجھول الحال قرار پایا ہے

چنانچہ :: الشيخ علي الشاهرودي علیہ رحمہ اپنی کتاب
- مستدركات علم رجال الحديث میں فرماتے ہیں::
إبراهيم بن عبد الله الصوفي :
*لم يذكروه*
، (اس کا کوئی ذکر موجود نہی ہے)
حوالا:: [ المسدرکات علم الرجال الجزء ١ ص ١٧١]

آقائے محمد الجواھری نے اس کے مجھول ہونے کا ذکر کیا ہے
ملاحظہ فرمائیں
[المفید من معجم الرجال حدیث ص ١٠ راوي ٢٠٢]

محمد بن سلیمان الدیلمی البصری

اس روایت میں محمد بن سلیمان الدیلمی البصری ضعیف راوی ہے

رجال النجاشی میں آقائے نجاشی علیہ رحمہ فرماتے ہیں::

محمد بن سلیمان الدیلمی البصری ضعيف جدا لا يعول عليه في شيء
ترجمہ محمد بن سلیمان الدیلمی البصری زیادہ ضعیف ہے ، اور کسی بھی چیز میں اس کی طرف رجوع نہیں کرنا چاہئیے
[ حوالہ :: رجال النجاشی ص ٢٦٥]

بالآخر آقائے مجلسی علیہ رحمہ نے اس روایت کو
ضعيف قرار دیا ہے

[مرآة العقول في شرح أخبار آل الرسول الجزء ٢٦ ص ١٦١]

ثانیاً‌:: اہلسنت کے بڑے مناظر شاہ عبد العزیز کے مطابق اہلسنت شیعان علی علیہ السلام ہیں

چنانچہ شاہ صاحب لکھتے ہیں::
پہلا فرقہ::
ان مخلصین اور جان نثار ساتھیوں کا ہے جو اہلسنت و الجماعت کے مقتدا و پیشوا ہیں ، حضرات اصحابِ کبار ازواجِ مطہرات کی حق شناسائی اور ظاھر و باطن کی پاسداری نیز جنگ و جدل کے باوجود سینہ کو بے کینہ اور پاک و صاف رکھتے ہیں،
جناب علی مرتضی رضی اللہ عنہ کے قدم بقدم رھے ان کو ہی شیعان اولی اور شیعان مخلصین کہتے ہیں

[حوالہ:: تحفہ اثناء عشریہ ص ٢٦ باب اول ]

ثالثاً ::
روضة الكافي والی روایت میں ہر شیعہ کی بات نہیں ہورہی جو شیعت کو اپنے آپ سے منصوب کرتے ہیں اور یہ ویسے ہی لوگ ہیں
جن کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے::

قَالَتِ ٱلْأَعْرَابُ ءَامَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا۟ وَلَٰكِن قُولُوٓا۟ أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ ٱلْإِيمَٰنُ فِى قُلُوبِكُمْ ۖ وَإِن تُطِيعُوا۟ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ لَا يَلِتْكُم مِّنْ أَعْمَٰلِكُمْ شَيْـًٔا ۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ

یہ بدوعرب کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں تو آپ کہہ دیجئے کہ تم ایمان نہیں لائے بلکہ یہ کہو کہ اسلام لائے ہیں کہ ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا ہے اور اگر تم اللہ اور رسول کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی کم نہیں کرے گا کہ وہ بڑا غفور اور رحیم ہے

[سورہ حجرات ٤٩ آیت ١٤ ]

مزید اس کی تشریح روایت کے آخری جملے ہوجاتی ہے جس میں امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں::

إنما شيعة علي من صدق قوله فعله
ترجمہ::
شیعہ تو وہی ہیں جو اپنے قول کی تصدیق اپنے فعل کے ذریعے سے کریں،

اللہ جانے ان ناصبیوں کو آخری جملہ یا تو نظر نہیں آتا یا تو اپنے مکر و فریب کا ثبوت دیتے ہیں ۔

خدا وند متعال مخالفین کو ھدایت کاملہ دے آمین