👈 خلافت امیرالمومنین علي ابن ابیطالب ؑ بنص رسول کریم ﷺوآله پر شیعي معتبر روایت بمع توثیقاتِ راویان کے پیشِ خدمت ہے    👉

شیخ صدوق علیه رحمه نے کتاب الامالي میں بسند معتبر عبدالله بن عباس عباس رضی اللہ عنه سے روایت نقل کری ہے کہ رسولِ کریم ﷺوآله نے امیرالمومنین علي ابن ابیطالب علیهم السلام سے فرمایا :
یاعلي ؑ ! تم میری موجودگی میں اور میرے بعد میری امت پر میرے خلیفہ ہو، تمهاری مجھ سے وہی نسبت ہے جو شیث ؑ کو آدم ؑ سے، سامؑ کو نوح ؑ سے،اسماعیل ؑ کو ابراهیم ؑ سے، یوشع ؑ کو موسی ؑ سے اور شمعون ؑ کو عیسی ؑ سے تهی ..
یاعلي ؑ ! تم میرے وصی و وارث ہو، تم مجهے غسل دو گے اور خاک میں دفن کرو گے، تم میرے دین کا حق ادا کرو گےاور میرے وعدے پورے کرو گے ..
یاعلي ؑ ! تم امیرالمومنین یعنی مومنوں کے امیر، امام المسلمین یعنی مسلمانوں کے امام، روشن چہرے والوں کے قائد اور یعسوب المتقین ہو ..
یاعلي ؑ ! تم جنت کی عورتوں کی سرادر میری دختر فاطمہ سلام الله علیها کے شوہر نامدار ہو اور میرے سبطین حسن ؑ و حسین ؑ کے والد ماجد ہو ..
یاعلي ؑ ! بیشک الله ہر پیغمبر ؑ کی ذریت کو اس کی نسل سے قائم کیا جبکہ میری ذریت اس نے تمهارے صلب سے مقرر کی ..
یاعلي ؑ ! جو کوئی آپ کو دوست رکهتا ہے اور تیرا خواہاں ہے میں اسے دوست رکهتا ہوں اور اس کا خواہاں ہوتا ہوں اور جو کوئی آپ سے کینہ و بغض رکهتا ہے اس سے میں بغض و کینہ رکهتا ہوں کیونکہ تم مجھ سے اور میں تم سے ہوں، بیشک خدا نے ہمیں پاک کیا اور برگزیدہ کیا اور آدم ؑ تک ہمارے اجداد نے کسی قسم کی آلودگی سے خود کو آلودہ نہیں کیا ..
یاعلي ؑ ! تمهیں حلال ذادہ ہی دوست رکهتا ہے ..
یاعلي ؑ ! تمهیں خوشخبری ہے کہ تم مظلومیت میں شہید کیئے جاؤ گے، یہ سن کر امیرالمومنین ؑ نے عرض کیا یارسول الله ﷺوآله! کیا اس حالت میں میرا دین سلامت ہوگا ؟ رسولِ کریم ﷺوآله نے فرمایا : یاعلی ؑ! تمهارا دین بالکل سلامت ہوگا، تم ہرگز گمراہ نہیں ہوگے اور تمهارے پایہء ثبات( یعنی ثابت قدمی ) کو ہرگز لغزش نہ آئے گی اور اگر تم نہ ہوتے تو میرے بعد حزب الله کی پہچان نہ رہتی ۔۔۔۔۔

609 / 19 - حدثنا أحمد بن هارون الفامي (رضي الله عنه)، قال: حدثنا محمد بن عبد الله بن جعفر بن جامع الحميري، عن أبيه، عن أيوب بن نوح، عن محمد بن أبي عمير، عن أبان الأحمر، عن سعد الكناني، عن الأصبغ بن نباتة، عن عبد الله بن عباس، قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله) لعلي (عليه السلام): يا علي، أنت خليفتي على أمتي في حياتي وبعد موتي، وأنت مني كشيث من آدم، وكسام من نوح، وكإسماعيل من إبراهيم، وكيوشع من موسى، وكشمعون من عيسى. يا علي، أنت وصيي ووارثي وغاسل جثتي، وأنت الذي تواريني في حفرتي، وتؤدي ديني، وتنجز عداتي. يا علي، أنت أمير المؤمنين، وإمام المسلمين، وقائد الغر المحجلين، ويعسوب المتقين. يا علي، أنت زوج سيدة النساء فاطمة ابنتي، وأبو سبطي الحسن والحسين. يا علي، إن الله تبارك وتعالى جعل ذرية كل نبي من صلبه، وجعل ذريتي من صلبك.
يا علي، من أحبك ووالاك أحببته وواليته، ومن أبغضك وعاداك أبغضته وعاديته، لأنك مني وأنا منك. يا علي، إن الله طهرنا واصطفانا، لم يلتق لنا أبوان على سفاح قط من لدن آدم، فلا يحبنا إلا من طابت ولادته.
يا علي، أبشر بالشهادة فإنك مظلوم بعدي ومقتول. فقال علي (عليه السلام): يا رسول الله، وذلك في سلامة من ديني؟ قال: في سلامة من دينك. يا علي، إنك لن تضل ولم تزل، ولولاك لم يعرف حزب الله بعدي (1).
وصلى الله على محمد وآله، وحسبنا ونعم الوكيل

الأمالي - الشيخ الصدوق - الصفحة ٤٤٩،٤٥٠

_______________________________________________

👈 راویان کی توثیق 👉

١ ۔۔۔ أحمد بن هارون الفامي :: اگرچہ ان کی صریح تعدیل وارد نہیں ہوئی لیکن ایک لحاظ سے اسکی تعدیل کی جا سکتی ہے مثال کے طور علامہ علی خاقاني ایک راوی کے سلسلے میں لکهتے ہیں : اس راوی کی صریح تعدیل نہیں لیکن پھر ایک فیصلہ کن قول لکھتے ہیں:
وانما استفید توثیقه من إمارات أخر کاستظهار کونه من مشایخ الصدوق - رحمة الله - لکثرته روایته عنه مترضیاً عنه و مترحماً علیه الي غیر ذلك من الموارد التي یستفاد منها حسن الحال ۔۔الخ

اس (راوی) کی توثیق کا استنباط اس طرح سے بھی ہوسکتا ہے کہ آپ شیخ صدوقؒ کے استادوں میں سے تھے۔ شیخ صدوق ؒ نے بہت سارے مقامات پر روایت لینے میں آپ کے ساتھ رضی اللہ عنہ اور رحمتہ اللہ علیہ جیسے الفاظ استعمال کیئے ہیں جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ آپ کا حال اچھا تھا۔۔الخ

رجال الخاقاني - الشيخ علي الخاقاني - الصفحة ١٨٣

الشیخ علي النمازي اپنی کتاب مستدرکات میں أحمد بن هارون الفامي أو القاضي کے متعلق لکهتے ہیں آپ شیخ صدوق ؒ کے مشایخ میں تهے اور شیخ نے آپ سے جب روایات نقل کری تو آپ کے ساتھ رحمه الله و رضی الله عنه لکهتے تهے۔۔

1828 - أحمد بن هارون الفامي أو القاضي: من مشايخ الصدوق يروي عنه مترحما " ومترضيا " عليه في كتبه.

مستدركات علم رجال الحديث - الشيخ علي النمازي الشاهرودي - ج ١ - الصفحة ٥٠٢

٢ ۔۔۔ محمد بن عبد الله بن جعفر بن جامع الحميري : ثقہ ہے 👇👇👇

[949] محمد بن عبد الله بن جعفر بن الحسين بن جامع بن مالك الحميري أبو جعفر القمي، كان ثقة، وجها،

رجال النجاشي - النجاشي - الصفحة ٣٥٤

٣ ۔۔۔ عبد الله بن جعفر الحميري : ثقہ ہے 👇👇👇

6762 - 6760 - 6771 - عبد الله بن جعفر الحميري: تقدم في عبد الله بن جعفر بن الحسن " الثقة المتقدم

المفيد من معجم رجال الحديث - محمد الجواهري - الصفحة ٣٢٩

قال نجاشی ؒ : عبد الله بن جعفر بن الحسين بن مالك بن جامع الحميري أبو العباس القمي. شيخ القميين

رجال النجاشي - النجاشي - الصفحة ٢١٩

٤ ۔۔۔۔ أيوب بن نوح : ثقہ ہے 👇👇👇

[254] أيوب بن نوح بن دراج النخعي أبو الحسين كان وكيلا لأبي الحسن وأبي محمد عليهما السلام، عظيم المنزلة عندهما، مأمونا، وكان شديد الورع، كثير العبادة، ثقة في رواياته، و أبوه نوح بن دراج كان قاضيا بالكوفة، وكان صحيح الاعتقاد، وأخوه جميل بن دراج.

رجال النجاشي - النجاشي - الصفحة ١٠٢

۵ ۔۔۔ محمد بن ابی عمیر : ثقہ ہے 👇👇👇

یہ نہایت ہی ثقہ تھے، اور تعریف سے غنی تھے۔

جامع الرواة - محمد علي الأردبيلي - ج ٢ - الصفحة ٥٠ - باب المیم بعده الحاء

٦ ۔۔۔۔ ابان بن عثمان الاحمر : ثقہ ہے 👇👇👇

یہ بھی تعریف سے غنی ہے، انکی تعریف دیکھنی ہو تو علامہ آردبیلی کی کتاب دیکھیں ، المختصر یہ کہ یہ ثقہ تھے۔(عکرمہ کے ذیل میں انکی تعریف دیکھیں)

جامع الرواة - محمد علي الأردبيلي - ج ١ - الصفحة ١٢ - باب الالف

٧ ۔۔۔ سعد الکنانی : سند میں موجود سعد الکنانی سے یہاں بظاہر سعد بن طریف مراد ہے کیونکہ یہی راوی اصبغ بن نباتة سے روایت لیتے ہیں ، مزید یہاں سند میں موجود سعد الکنانی سے مراد سعد بن طریف ہے اسکی دلیل الشیخ الصدوق ؒ کی ایک اور سند میں ہے جس میں سعد بن طریف الکنانی ذکر ہے سند ملاحظہ ہوں 👈+ حدثنا علي بن أحمد بن موسى - رضي الله عنه - قال: حدثنا أحمد بن يحيى بن زكريا القطان، قال: حدثنا محمد بن العباس بن بسام، قال: حدثني محمد بن أبي السري قال: حدثنا أحمد بن عبد الله بن يونس، 👈عن سعد بن طريف الكناني👉، عن الأصبغ بن نباتة عن علي بن أبي طالب عليه السلام +👉 ۔۔۔۔

شیخ طوسی ؒ ان کے متعلق لکهتے ہیں : سعد بن طریف حنظلی اسکاف، یہ بنی تمیم کے آزاد کردہ غلام ہیں اور کوفی ہیں۔ ان کو سعد خفاف بھی کہا جاتا ہے، یہ اصبغ بن نباتہ سے روایت کرتے ہیں، اور یہ صحیح الحدیث ہیں۔۔۔

[ 1147 ] 17 - سعد بن طريف الحنظلي الإسكاف، مولى بني تميم الكوفي، ويقال : سعد الخفاف، روى عن الأصبغ بن نباتة، وهو صحيح الحديث .

علامہ جواهری نے اپنی کتاب المفید میں سعد بن طریف کا شمار اصحابِ امام سجاد و امام الصادقین میں کیا ہے اور کہا کہ یہ ثقہ ہیں ۔۔۔

5044 - 5043 - 5053 - سعد بن طريف " ظريف ": الحنظلي مولاهم الإسكاف - من أصحاب السجاد، والباقر، والصادق (ع) - ثقة - الخ

المفيد من معجم رجال الحديث - محمد الجواهري - الصفحة ٢٤٦

اور رہا شیخ نجاشی کا قول سعد بن طریف کے متعلق کہ " يعرف وينكر، یعنی کبهی اس کی روایت قبول ہوتی ہیں کبهی رد ہوتی ہیں " تو شیخ نجاشی کے اس قول کی تشریح شیخ علی نمازی شاهرودی نے یوں کری ہے 👇

والظاهر أن مراد النجاشي بقوله: يعرف، يعني: له روايات معروفة صحيحة، نعرف صحتها. ومنكرة لا نعرف صحتها. يعني: النكرة في مقابل المعرفة، لا أنها منكرة نعرف بطلانها. فلا يثبت حكم النجاشي بقدح رواياته ولا ينافي عدم عرفان النجاشي مع عرفان الشيخ وحكمه بكونه صحيح الحديث.
فها أنا أتلو عليك جملة من رواياته حتى يتضح الامر في حاله:
لکهتے ہیں کہ ظاہرا نجاشی کا کہنا کہ معروف ہے اس سے مراد اس سے منقول روایات میں صحیحہ اور معروف ہیں جنکی صحت کو ہم جانتے ہیں۔
اور( یہ عبارت ) اس کی روایات قابل انکار ہیں ان کی صحت کو ہم نہیں جانتے ہیں اس سے مراد یہاں نکرہ معرفہ کے مقابلے میں استعمال کیا گیا ہے یعنی قابل انکار سے مراد ان کی معرفت نہ ہونا مراد ہے نہ کہ روایات قابل انکار ہیں اور ہم اس کے باطل ہونے کو جانتے ہیں۔
پس نجاشی کا حکم ثابت نہیں اس کی روایات پر نقد کا اور نجاشی کا اس کو نہ جاننا شیخ کے جاننے کے منافی نہیں اور ان کا جو حکم ہے کہ یہ صحیح الحدیث ہے۔۔۔
پس یہاں ہم چند روایات بیان کرتے ہیں تاکہ اس کی حقیقت حال واضح ہو جائے۔ الخ

مستدركات علم رجال الحديث - الشيخ علي النمازي الشاهرودي - ج ٤ - الصفحة ٣٣

٨ ۔۔۔۔ الاصبغ بن نباتة : شیخ الطوسی ؒ نے الفہرست میں انکا شمار امیرالمومنین ؑ کے خاص اصحاب میں سے کیا ہے۔

الأصبغ بن نباتة رحمه الله، كان الأصبغ من خاصة أمير المؤمنين عليه السلام

الفهرست - الشيخ الطوسي - الصفحة ٨٥ - رقم - ١١٩

علامہ جواهری نے بهی الاصبغ بن نباتة کو امیرالمومنین ؑ کے خاص اصحاب میں شمار کیا اور کہا ہے کہ یہ تفسیر القمی کے راوی ہیں اور وہ ثقہ ہیں ۔۔۔

1510 - 1509 - 1517 - الأصبغ بن نباتة: المجاشعي من السلف الصالح، من خاصة (1) أمير المؤمنين (ع) قاله النجاشي - روى في تفسير القمي فهو ثقة -

المفيد من معجم رجال الحديث - محمد الجواهري - الصفحة ٧٤

تو ثابت ہوا مذکورہ روایت کی سند معتبر ہے اگر پهر بهی کوئی سعد بن طریف پر کلام کرے تو اس کے لیئے عرض ہے بالفرض سعد ضعیف بهی ہو تو بهی اس کی سند میں دو راوی محمد بن ابي عمیر اور ابان بن عثمان الاحمر اصحاب الاجماع میں شامل ہیں تو اس لیئے بهی روایت ان کی سند تک معتبر ہی کہلائے گی ۔۔۔

اصحاب الاجماع کے متعلق شیخ کشي ؒ اپنی کتاب الرجال میں لکهتے ہیں :

أجمعت العصابة على تصحيح ما يصحّ عن هؤلآء وتصديقهم لما يقولون ، وأقرّوا لهم بالفقه من دون أولئك السّتّة الّذين عددناهم وسمّيناهم ستّة نفر : جميل بن دراج وعبد الله بن مسكان وعبد الله بن بكير وحماد بن عثمان ، وحمّاد بن عيسى وأبان بن عثمان....الخ

عبارت کا مفهوم یہ ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ ٦ نفر یعنی جميل بن دراج وعبد الله بن مسكان وعبد الله بن بكير وحماد بن عثمان ، وحمّاد بن عيسى اور أبان بن عثمان جس چیز کو صحیح کہہ دیں وہ صحیح ہے

اختيار معرفة الرجال - الشيخ الطوسي - ج ٢ - الصفحة ٦٧٣ - الرقم ٧٠٥

الشیخ الکشي ؒ کی عبارت میں ابان بن عثمان کا بهی ذکر ہے تو ان کے نزدیک وہ روایت صحیح تهی اس لیئے تو ابان الاحمر نے اسے نقل کیا ہے ۔۔۔۔

تحقیق و تحریر :: جبران علی