عمر بن خطاب کے مطائن کو سنی محدثین نے کس طرح چھپایا اسکی ایک دلیل ملاحظہ۔ کریں

عمر بن خطاب کا اپنی بیوی کو پیٹنا اور اپنے اس قبیح عمل کو چھپانے کے لئے نبی پر جھوٹ باندھنا۔❗️

جب یہ لوگ شخصیات کی پرستش میں اس قدر غرق ہونے کیوجہ سے روایات اور احادیث میں تحریفات کر جاتے ہیں تو سوچو انکی عدالت پیچھے کیا رہ جاتی ہے ؟

سوچو یہ تو وہ باتیں ہیں جو آج ہمارے پاس پہنچ چکی ہیں تو سوچو وہ مطائن جو ہم تک نہیں پہنچ سکے۔جماعت عمری یہ نے ہمیشہ فراڈ اور جھوٹ سے اپنے بتوں کا دفاع کیا ہے۔

دیکھیں اس روایت کو کس طرح کانٹ چھانٹ کر ابو داؤد صاحب نے پیش کیا ہے۔

(سنن ابوداو حدیث ۲۱۴۷)

حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’ شوہر سے ، بیوی کو مارنے کے سلسلے میں ، سوال نہیں کیا جائے گا ۔

سنی محدث آدھی حدیث کا متن ہی کھا گیا۔تاکہ اپنے سامری کو بچا سکے۔
پہلی تو بات تو یہ ہے عمر نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جھوٹ باندھا ۔ خدا کے رسول کیا ایسا حکم کیسے دے سکتے ہیں جو خلاف عقل و شریعت کے ہو۔؟ہم سب جانتے ہیں ہرگز نہیں۔ بلکہ اپنی بیوی کیساتھ حسن سلوک پر بے شمار احادیث موجود ہیں۔

بلکہ ایک مشہور واقع سعد بن معاذ کا جنکو فشار قبر ہوا تھا اس وجہ سے کہ وہ اپنی بیوی کو برے القاب سے بلاتے تھے ۔ جبکہ انکا جنازہ رسول خدا نے پڑھایا تھا اور فرشتے بھی ان کے جنازے میں شریک ہوئے تھے۔ اس روایت کو شیعہ و سنی دونوں محدثین نے نقل کیا ہے۔

پوری روایت دوسری کتاب میں یوں ہے

(سنن ابن ماجہ حدیث ۱۹۸۶)

حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، انہوں نے فرمایا : میں ایک رات حضرت عمر کے ہاں مہمان رہا ۔ آدھی رات ہوئی تو وہ اٹھ کر اپنی عورت کو مارنے لگے ، میں نے بیچ بچاؤ کرا دیا ۔ جب وہ اپنے بستر پر گئے تو مجھ سے فرمایا : اے اشعث ! میری ایک بات یاد رکھنا ۔ میں نے وہ بات رسول اللہ ص سے سنی ہے ۔ ( آپ نے فرمایا : ) ’’ مرد سے نہیں پوچھنا چاہیے کہ اس نے اپنی عورت کو کیوں مارا ۔ اور وتر پڑھے بغیر مت سویا کر ۔‘‘ اور تیسری بات مجھے یاد نہیں رہی ۔
حضرت ابوعوانہ رحمہ اللہ نے ایک دوسری سند سے بھی مذکورہ بالا روایت کی مانند بیان کیا ۔

حضرت عمر کی ایک عادت تھی جب وہ بھی وہ کوئی برا فعل انجام دیتے اور پکڑے جاتے تو یا تو خدا کیطرف جھوٹ منسوب کر دیتے یا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیطرف۔

جنگ حنین میں میدان جنگ سے جب حضرت عمر تشریف لے جا رہے تھے تو جب دوسری صحابی جو خود بھی تشریف لے جا رہے تھے نے پوچھا کہ لوگ کیوں بھاگ رہے ہیں تو عمر نے جواب دیا خدا کا یہی حکم ہے۔
جبکہ ہم سب جانتے ہیں قرآن میں جنگ سے فرار کو جہنم کا باعث قرار دیا ہے اور خدا نے کافی جگہ جنگ سے تشریف لے جانے کی مذمت کی ہے۔

سید عمار حسینی