صحابی ے رسول اللہ ص حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ کا قتل -------؛؛؛؛؛؛؛-------

حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ کی وفات 15 قمری ھجری میں شام کے علاقے حوران کے راستے میں واقع ہوئی۔ البتہ تاریخ وفات ۱۱ قمری ھجری، اور 14 قمری ھجری بھی ذکر ہوئی ہے لیکن 15 قمری ھجری درست تر معلوم ہوتی ھے۔

ان کی کیفیت وفات میں اختلاف مذکور ہے.
کچھ راویان کہتے ہیں کہ جب انہوں نے عمر کو ابوبکر بن قحافہ کی بیعت سے انکار کیا تو عمر بن خطاب کے کہنے پر مدینہ سے باہر آئے اور حوران شام کے راستے میں ان کی موت واقع ہوئی۔

لیکن کچھ معتقد ہیں کہ انہیں قتل کیا گیا۔

ان کے قتل میں دو آرا پائی جاتی ہیں۔ کچھ اہل سنت مآخذوں کے مطابق پہلی رائے یہ ہے کہ کھڑے ہو کر پیشاب کرنے کی وجہ سے شریر "جنات" نے ان کو قتل کیا ان کے قتل کے بعد دف بجاتے ہوئے" شاعری پسند جنات" یہ شعر پڑھ رہے تھے.

قد قَتَلنا سیدَ الخزرجِ سَعدَ بن عُبادةورَمَیناهُ بسهمین فلم یخطِ فُؤاد
َهم نے خزرج کے سردار سعد بن عبادہ کو قتل کر دیا ہم نے اسے دو تیر مارے کسی ایک نے دل سے خطا نہیں کیا.

اس داستان کو بعض اہل سنت شک و تردید کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

مروی ہے کہ ایک اہل سنت شخص نے شیعہ سے سوال کیا اگر خلافت علی علیہ السلام کا حق تھا اور ابوبکر نے اسے غصب کیا تھا تو علی علیہ السلام نے کیوں اس کے حصول کیلئے قیام نہیں کیا؟؟؟؟
شیعہ نے جواب دیا.
علی علیہ السلام جانتے تھے کہ کہیں انہیں بھی "شریرجنات" قتل نہ کر دیں۔
جنات کے ہاتھوں حضرت سعد رض کے قتل کی داستان کے رد میں درج ذیل شعر کہا گیا

یقولون سعد شقت الجن بطنهالا ربما حققت فعلک بالغدر
وہ کہتے ہیں جنات نے سعد کا شکم پارہ کیا آگاہ رہو تم نے کس قدر چالاکی سے اپنا فعل انجام دیا و ماذنب سعد انه بال قائماًو لکن سعداً لم یبایع
ابابکر بن قحافہ سعد کا یہ گناہ نہیں تھا کہ اسنے کھڑے ہو کر پیشاب کیا بلکہ ان کا ( گناہ یہ تھا کہ) انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی

بعض معتقد ہیں کہ خالد بن ولید اور محمد بن سلمہ انصاری عمر کی طرف سے مامور ہوئے کہ وہ شام میں اس سے بیعت لیں۔
جب یہ دونوں سعد کے روبرو ہوئے تو انہوں نے بیعت کی مخالفت کی۔ ان دونوں نے انہیں تیر مارے جس سے انکی موت واقع ہوئی۔

ریفرنسز ------------
طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۳.
ابوحاتم، کتاب الثقات، ج۳، ص۱۴۹ زرکلی، الاعلام، ج۳، ص۸۵
ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۷
ابن عبدالبر، الاستیعاب، ج۲، ص۱۶۴ ابن حجر، تہذیب التہذیب، ج۳، ص۴۱۲؛
شوشتری، مجالس المؤمنین، ج۲، ص۲۳۵؛
مزی، تہذیب الکمال، ج۱۰، ص۲۸۰؛
ابن سعد، طبقات الکبری، ج۳، ص۶۱۷.
تستری، قاموس الرجال، ج۵، ص۴۹

برادر محمد خان کے قلم سے 🙏
.