ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﻴﻦ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺧﻴﺮ ﺧﻠﻘﻪ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﺑﺮﻳﺘﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻋﺘﺮﺗﻪ ﺍﻟﻄﺎﻫﺮﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻌﻦ ﺍﻟﺪﺍﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻋﺪﺍﺋﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ ﺇﻟﻰ يوم الدين۔

۞ خطبہ ١٣٢ اور ١٤٤ کا مشترکہ جواب انجنیئر محمد علی مرزا کی خدمت میں۞

∆حصہ رابع∆

ناظرین امیر المؤمنینؑ کے ان دو خطبوں کو لے کر مخالفین یہ استدلال کرتے ہیں کہ امیر المؤمنینؑ اور خلفائے ثلاثہ بالخصوص عمر بن خطاب میں تعلقات اچھے تھے اور اس سلسلہ میں کہا یہ گیا کہ

۞١۞ امیر المؤمنین ع کا ان لوگوں (ابوبکر ،عمر عثمان وغیرہ) کو مشورہ دینا ان کے اچھے تعلقات پر دلالت کرتا ہے

۞٢۞ عمر بن خطاب کے مرنے کو مسلمانوں کی جمعیت پر کاری ضرب سمجھتے تھے

۞٣۞ آیت استخلاف (سورة النور آیت٥٥) میں جو وعدہ خلافت ہے اس کا مستحق ان (ابوبکر ،عمر عثمان) کو سمجھتے تھے۔

آئے ان تینوں اشکالات کے جوابات دیتے ہیں

×مشورہ دینا کیا باہمی اتفاق کی علامت ہے×

ناظرین صحیح مشورہ دینا یہ نبیوںؑ کا بھی کام ہے اور یہ نبیوںؑ کے بعد ان کے اوصیاءؑ کا بھی کیونکہ رسولﷺ سے مروی روایت ہے:

المستشارُ مؤتمَنٌ

جس سے مشورہ لیا جائے وہ امین ہوتا ہے۔

ترمذی نے اس روایت کو حسن قرار دیا اور البانی نے اس روایت کو صحیح قرار دیا۔

حوالہ:[ سنن الترمذی ص ٦٣١ رقم ٢٨٢٢]

یہی سیرت نبی اللہ یوسفؑ کی رہی کہ جب عزیز مصر نے خواب دیکھا تو اس کی تعبیر حضرت یوسفؑ نے بتائی اور سورہ یوسف میں اس کا تذکرہ یوں آتا ہے:

يُوسُفُ أَيُّهَا الصِّدِّيقُ أَفْتِنَا فِي سَبْعِ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ يَأْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعِ سُنبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ يَابِسَاتٍ لَّعَلِّي أَرْجِعُ إِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَعْلَمُونَ قَالَ تَزْرَعُونَ سَبْعَ سِنِينَ دَأَبًا فَمَا حَصَدتُّمْ فَذَرُوهُ فِي سُنبُلِهِ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّا تَأْكُلُونَ ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ سَبْعٌ شِدَادٌ يَأْكُلْنَ مَا قَدَّمْتُمْ لَهُنَّ إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّا تُحْصِنُونَ ثُمَّ يَأْتِي مِن بَعْدِ ذَٰلِكَ عَامٌ فِيهِ يُغَاثُ النَّاسُ وَفِيهِ يَعْصِرُونَ

ترجمہ مودودی: اس نے جا کر کہا "یوسفؑ، اے سراپا راستی، مجھے اس خواب کا مطلب بتا کہ سات موٹی گائیں جن کو سات دبلی گائیں کھا رہی ہیں اور سات بالیں ہری ہیں اور سات سوکھی شاید کہ میں اُن لوگوں کے پاس جاؤں اور شاید کہ وہ جان لیں" یوسفؑ نے کہا "سات بر س تک لگاتار تم لوگ کھیتی باڑی کرتے رہو گے اس دوران میں جو فصلیں تم کاٹو اُن میں سے بس تھوڑا ساحصہ، جو تمہاری خوراک کے کام آئے، نکالو اور باقی کو اس کی بالوں ہی میں رہنے دو پھر سات برس بہت سخت آئیں گے اُس زمانے میں وہ سب غلہ کھا لیا جائے گا جو تم اُس وقت کے لیے جمع کرو گے اگر کچھ بچے گا تو بس وہی جو تم نے محفوظ کر رکھا ہو اس کے بعد پھر ایک سال ایسا آئے گا جس میں باران رحمت سے لوگوں کی فریاد رسی کی جائے گی اور وہ رس نچوڑیں گے"

[سورہ یوسف آیت ٤٥ سے ٤٩]

پھر بات یہاں نہیں رکتی بلکہ خود نبی اللہ یوسفؑ گذارش کرتے ہیں کہ ان کو وزیر مالیت بنایا جائے (یعنی جو ایک کافر حکومت کے مالی ادارے کو چلانے والے تھے) تو آیت یوں وارد ہوئی:

قَالَ اجْعَلْنِي عَلَىٰ خَزَائِنِ الْأَرْضِ ۖ إِنِّي حَفِيظٌ عَلِيمٌ

مودودی ترجمہ: یوسفؑ نے کہا، "ملک کے خزانے میرے سپرد کیجیے، میں حفاظت کرنے والا بھی ہوں اور علم بھی رکھتا ہوں"

[سورہ یوسف آیت ٥٥]

چنانچہ نبی یوسفؑ کا مشیر ہونا اور اس کو حکومت چلانے میں مدد کرنا صرف اس نیت سے تھا کہ لوگوں کی فلاح و بہبود اور نظام ملک صحیح سے چلایا جائے نہ کہ اس عزیز مصر (کافر حاکم) سے کوئی محبت تھی

بعینیہ جب امیر المؤمنینؑ مشورہ دے رہے ہیں تو ان کا مقصد صرف اور صرف فلاح عامہ تھی نہ کہ عمر یا ابوبکر سے محبت اور یہ صرف ایک دو دفعہ نہیں بلکہ کئی موقع پر امیر المؤمنینؑ نے خلفاء ثلاثہ کے لئے ہوئے احکام کے مقابلہ میں صحیح حکمت عملی اور قرآن و حدیث کے صحیح احکامات کو ارسال کیا۔

×عمر اور مسلمانوں کی جمعیت کا مرکز×

قارئین:: یہ بات ذھن میں رہے کہ امیر المؤمنینؑ نے عمر کو غزوہ میں جانے کو اس وجہ سے منع کیا کہ:

۞اول۞ اگر مسلمان شکست کھاتے ہیں تو اس صورت میں وہ کہا واپس پلٹیں گے؟
چونکہ فوج بھجینے والی ذات ہی عمر کی ہے تو اگر مسلمان شکست کھائیں گے تو مرکز یعنی خلیفہ وقت کے پاس پہنچیں گے
(اگرچہ ظاہری طور پر ہی صحیح کیونکہ حقیقی خلیفہ امیر المؤمنینؑ کی ذات اقدس تھی)

۞دوم۞ عمر چونکہ حکومت پر متمکن تھا تو اگر دشمن اگر جان لیتا کہ یہ سردار ہے تو ان کی بہت زیادہ کوشش ہوتی کہ عمر کا قلع قمع کردیں

اور یوں جو اسلامی فوج لڑنے گئی تھی وہ نہ فقط شکست کھاتی جیسے جنگ احد میں رسول ﷺ کی شہادت کی غلط خبر جب چلی تو کافی سارے مسلمان بھاگ گئے
بلکہ یہ دشمن پھر فقط ان جنگی علاقوں پر جنگ کرنے پر اکتفاء نہ کرتے بلکہ اسلامی علاقوں میں آکر لوٹ مار مچاتے اور یوں ایک سلسلہ شکستوں کا چل پڑتا۔

ادھر ایک بات اگر غور سے دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ ادھر عمر کی تعریف نہیں بلکہ مذمت کی جارہی ہے کہ خود امیر المؤمنینؑ بنفس نفیس جنگ جمل، صفین اور نہروان میں لڑنے آئے، وجہ یہ تھی کہ امیر المومنینؑ موت سے عشق کرنے والے اور جام شہادت کو پینے کے بہت طلب گار تھے اور ساتھ ہی بہادری میں کوئی مثال نہ رکھتے تھے
لیکن عمر کا ٹریک ریکارڈ بہت مایوس کن تھا جب ہی خطبہ کے الفاظ ہیں (ارسل لھم رجلا محربا): کسی تجربہ کار جنگجو کو ان سے لڑنے بھیجو۔
عمر خود جنگ احد میں بھاگے تھے

[تفسیر طبری جلد ٧ ص ٣٢٧]

پھر جنگ خیبر میں یوں بھاگے کہ ان کے سپاہی ان کو ڈرپوک گردانتے اور یہ اپنے سپاہیوں کو کوستے

[المستدرک جلد ٣ ص ٤٠]

غرض یہ کہ یہ سرت ان کی جنگ حنین میں بھی جاری رہی اور وہاں بھی یہ بھاگے

[صحیح بخاری، کتاب المغازی رقم روایت٤٣٢٢]

چنانچہ یہ دراصل ایک تعریض تھی عمر کے اوپر اور جب ہی

×کیا آیت استخلاف کا مصداق خلافت عمر کو سمجھا گیا×

ناظرین آیت استخلاف سورہ نور کی آیت ٥٥ ہے جو یوں وارد ہوئی:

وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا ۚ يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا ۚ وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَٰلِكَ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ

اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُن لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں اور جو اس کے بعد کفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں
[ترجمہ مودودی]

انجینئیر صاحب نے جو امیر المؤمنینؑ کا خطبہ ١٤٤ ہے جس میں آپؑ نے کہا:

وَنَحْنُ عَلَى مَوْعُود مِنَ اللهِ، وَاللهُ مُنْجِزٌ وَعْدَهُ،

اور ہم سے اللہ کا ایک وعدہ ہے اور وہ اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔

ناظرین یہ وعدہ کیا ہے اس کی تصریح خطبہ میں موجود نہیں اور یہ انجینئیر صاحب کا خود کا استدلال ہے جو ان پر حجت ہے۔ چناچنہ اس کی دلیل انہوں نے پیش نہ کی بلکہ کہا یہ جائے گا کہ امیر المؤمنینؑ کے خطبہ کا اگر پہلے حصہ دیکھیں جس میں انہوں نے قلت اور کثرت فوج کا فلسفہ بتایا ہے یہ وعدہ اس کے متعلق ہے،
چنانچہ شروع میں امیر المؤمنینؑ فرماتے ہیں::

إِنَّ هذَا الاَْمْرَ لَمْ يَكُنْ نَصْرُهُ وَلاَ خِذْلاَنُهُ بِكَثْرَة وَلاَ بِقِلَّة

اس امر میں کامیابی و ناکامیابی کا دارومدار فوج کی کمی بیشی پر نہیں رہا ہے۔

چنانچہ جب آپ قرآنی آیات دیکھیں اس میں بھی اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ مدد خدا ہی فیصل ہے کامیابی و عدم کامیابی میں۔

۞الف۞ سورہ آل عمران کی آیت ١٢٣ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ بِبَدْرٍ وَأَنتُمْ أَذِلَّةٌ ۖ فَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ

ترجمہ مودودی: آخر اس سے پہلے جنگ بدر میں اللہ تمہاری مدد کر چکا تھا حالانکہ اس وقت تم بہت کمزور تھے لہٰذا تم کو چاہیے کہ اللہ کی ناشکر ی سے بچو، امید ہے کہ اب تم شکر گزار بنو گے

۞ب۞ سورہ توبہ آیت ٢٥ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّـهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ۙ وَيَوْمَ حُنَيْنٍ ۙ إِذْ أَعْجَبَتْكُمْ كَثْرَتُكُمْ فَلَمْ تُغْنِ عَنكُمْ شَيْئًا وَضَاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُم مُّدْبِرِينَ

ترجمہ مودوی: اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے ابھی غزوہ حنین کے روز (اُس کی دستگیری کی شان تم دیکھ چکے ہو) اس روز تمہیں اپنی کثرت تعداد کا غرہ تھا مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے

چنانچہ اس خطبہ کا اشارہ آیت استخلاف کی طرف ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی خلفائے ثلاثہ مصداق ہوسکتے ہیں اور اس آیت استخلاف کی تفصیل پھر کبھی

انشاء اللہ

تحریر :: آقائے خیر طلب زیدی حفظ اللہ تعالیٰ

ترتیب :: خاکسار عبداللہ صدیقی