📌کتاب سلیم بن قیس رح کی چار بنیادی  اسناد

بعض جہلا کی جانب سے جاہلانہ اعتراض اٹھایا جاتا ہے کہ سلیم بن قیس کی کتاب کی ایک ہی سند ہے اس کے علاوہ کوئی اور سند نہیں ہے
ان جہلا کے اس قول کی حیثیت کذب بیانی کے علاوہ کچھ نہیں
--------

بہرحال ہمارا مدعا یہ ہے کہ سلیم بن قیس کی کتاب کی چار اسناد ہیں
یعنی چار راوی ہیں جنہوں نے سلیم سے احادیث نقل کی ہیں
بالفرض ابان بن ابی عیاش کو ضعیف مان بھی لیا جائے ( ہمارے نزدیک معتبر ہے )

تب بھی کتاب کی سند پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ بقیہ تینوں راوی معتبر ترین راوی ہیں

♦️ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سلیم بن قیس سے جو جو روایات نقل کی گئی ہیں وہ سلیم بن قیس کی کتاب سے ہی نقل ہوئی ہیں ، اس کی کتاب کے علاوہ یہ روایات کہیں سے نقل نہیں ہوئیں
کیونکہ سلیم بن قیس کے پاس جو جو احادیث تھیں اس نے ان کو اپنی کتاب میں نقل کیا ہے

♦️ کیا علمائے شیعہ نے سلیم بن قیس کی مختلف اسناد کا زکر کیا ہے ؟

کتب رجال میں دیکھیں تو شیخ ابن غضائری کہتے ہیں کہ
" سلیم کی کتاب کی مختلف سندیں ہیں"

کسی میں ابراہیم بن عمر نے سلیم سے بواسطہ ابان روایت کی ہے اور کبھی بلا واسطہ۔

رجال غضائری ص ۶۴

شیخ نجاشی کی کتاب میں وہ کہتے ہیں

سليم بن قيس الهلالي له كتاب، يكنى أبا صادق أخبرني علي بن أحمد القمي قال: حدثنا محمد بن الحسن بن الوليد قال: حدثنا محمد بن أبي القاسم ماجيلويه، عن محمد بن علي الصيرفي، عن حماد بن عيسى وعثمان بن عيسى، قال حماد بن عيسى: وحدثنا إبراهيم بن عمر اليماني عن سليم بن قيس " بالكتاب "

ابراہیم بن عمر نے سلیم سے روایت کی ہے، اور جب وہ کتاب کی سند دیتے ہیں تو اس میں بھی ابراہیم بن عمر نے سلیم سے روایت کی ہے۔

رجال نجاشی رقم ۴

بعض اسانید میں دیکھیں تو ابان بن تغلب نے بھی سلیم سے کتاب نقل کی ہے۔

♦️ لہذا علماء کے ان اقوال سے ثابت ہے کہ یہ کتاب مختلف اسناد سے نقل ہوئی ہے جس سے یہ قول باطل ثابت ہوتا ہے کہ اس روایت کا فقط ایک ہی راوی ہے

📌 سلیم بن قیس سے روایات نقل کرنے والے باقی تین راوی

1 : ابراہیم بن عمر الیمانی
2 : ابان بن تغلب
3 : ابراہیم بن عثمان

1 ابراہیم بن عمر الیمانی کی سند

عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلالِيِّ
قَالَ سَمِعْتُ سَلْمَانَ الْفَارِسِيَّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ...

(الکافی، ج 8، ص ۱۸۲، رقم ۵۴۱)

حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنِ الْحُسَيْنِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُمَرَ الْيَمَانِيِّ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلَالِيِّ...

( بصائر الدرجات ص ۱۰۳)

♦️ دوسرے راوی ابان بن تغلب کی سند

حَدَّثَنَا أَبِي رَضِيَ اَللَّهُ عَنْهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اَللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ يَزِيدَ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اَللَّهِ بْنِ مُسْكَانَ عَنْ أَبَانِ بْنِ تَغْلِبَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ اَلْهِلاَلِيِّ عَنْ سَلْمَانَ اَلْفَارِسِيِّ رَضِيَ اَللَّهِ عَنْهُ قَالَ:...

( کمال الدین و تمام النعمہ ، ج ۱ ، ص ۳۷۳

♦️ تیسرے راوی ابراہیم بن عثمان کی سند

- عَلِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ عَنْ أَبِيهِ عَنْ حَمَّادِ بْنِ عِيسَى عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ عَنْ سُلَيْمِ بْنِ قَيْسٍ الْهِلالِيِّ قَالَ خَطَبَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ (عَلَيْهِ السَّلام)..

( الکافی ج ۸ ، ص ، ۳۶ )

ان تین اسناد سے بالکل واضح ہے کہ کتاب سلیم بن قیس کو ابان بن ابی عیاش کے علاوہ ان تین راویوں نے بھی نقل کیا ہے

♦️ ان تینوں راویوں کی توثیق

1 : ابراہیم بن عمر الیمانی

شیخ نجاشی نے انہیں " ثقہ " قرار دیا ہے اور انہیب مشائخ امامیہ میں سے قرار دیا ہے

رجال نجاشی رقم ۲۶

2 : ابان بن تغلب

شیخ نجاشی نے انہیں جلیل القدر مشائخ امامیہ میں سے قرار دیا ہے

( رجال نجاشی رقم ۷ )

3 : ابراہیم بن عثمان

ان کی وثاقت پر بھی اتفاق ہے
----------------

رہی بات ابان بن ابی عیاش کی تو وہ مختلف الفیہ راوی ہے
اس کی مدح و توثیق بھی کتب میں موجود ہے
لہذا یہ بالکل واضح ہے کہ سلیم بن قیس کی کتاب معتبر کتاب ہے اور معتبر اسناد سے نقل ہوئی ہیں ۔

 

 تحریر ::::برادر علی حیدر شیرازی