موضوع : رزیّة الخمیس

حدیث قرطاس اور اس کی دلالت

 

بسم الرحمن الرحیم

موضوع : رزیّة الخمیس
حدیث قرطاس اور اس کی دلالت

(المرحلة الاولی)

** لفظ الھُجر پر بحث***

قارئین گرامی
عموماً ہوتا یوں ہے کہ حدیثِ قرطاس پر گفتگو کرنے والے ہمارے احباب پہلے حدیث نقل کرتے ہیں پھر اس کی دلالت پر بحث کرتے ہیں ثالثا اگر معترض اعتراض کرے تو اس کے اعتراض کے جواب میں مزید تنقیح و توضیح سے کام لیتے ہیں

لیکن ہم بالکل مختلف (شاید یہ انداز اگر ہم سے پہلے کسی سے اپنایا بھی ہو تو ہمارے علم میں بالکل نہیں) سے اس پر بحث کرنا چاہتے ہیں
اور اہل السنت حضرات کو بھی دعوتِ فکر دیں گے کہ وہ ہمارے خلاف اپنے تعصب کو ایک طرف رکھ کر بالکل نیوٹر ہوکر ہماری بات کو سنیں ۔
ہم پہلے مفردات پر بحث کریں گے
اس حدیث میں جو لفظ موردِ نزاع ہے
بلکہ ہے نہیں بنایا گیا ہے وہ ہے
لفظِ “ الھُجر”
جس کا مطلب ہے (ہذیان بکنا )
شاید خود لفظ “ہذیان” آج کل کے اردو دان حضرات لے لیا اتنا معروف نا ہوں
اس کو یوں لکھا جاتا ہے
ہَذ٘یانࣿ
البتہ ہم نے اہل زبان کو اسے
ہِذیان بھی پڑھتے ہوئے سنا ہے
بحرحال
“ہذیان بکنا” محاورہ ہے جس کا مطلب ہے
بے ہودہ باتیں کرنا (فیرزُ اللغات)
ہم دو طرح سے اس لفظ کو لے کر بحث کریں گے

۱ :- اس لفظ کے لغات میں معانی
۲:- جو زیر بحث حدیث (قرطاس) ہے اس میں اس کا معانی

اگرچہ پہلے معنی کے بعد دوسری بحث کی حاجت نہیں رہتی مگر شکوک و شبہات کے مریضوں کے لیے یہ بحث ضروری ہے۔

اوّلا: “ الھُجر “ لغتا

علامہ ابن منظور “لسان العرب” (ج ۱۵ ص ۳۳ ذیل ھ ج ر )
میں لکھتے ہیں:

الھجر : القبیحُ من الکلام
ھُجر کا مطلب ہے قبیح کلام

الھُجر : الھذیان
ھجر کہتے ہیں ہذیان کو

الھُجر بالضمة الاسم من الاهـجار وهـو الإفحاش
ھجر (پیش کے ساتھ) یہ اسم ہے اھجار سے اور اس اس کا مطلب ہے فحش بکنا

۲ :- علامہ محمد بن یعقوب فیروزآبادی “ القاموس المحیط “ ( ط دار الحدیث ص ۱۶۷۵ ) میں لکھتے ہیں
الھُجر بالضّم : القبیح من الکلام
ھجر (پیش کے ساتھ ) قبیح برا کلام

اب ہم عربک ٹو اردو ڈکشنریز کی طرف آتے ہیں:

وحید الزمان قاسمی کیرانوی “قاموس الوحید” میں لکھتے ہیں:
الھُجر : بیہودہ گوئی ،ہرزہ سرائی،فحش کلام

المنجد :
الھُجر : نا مناسب کلام ، بد گوئی

مصباحُ اللغات:
الھُجر : قبیح گفتگو ، فحش گوئی

اس کے اعلاوہ علامہ راغبِ اصفہانی کی المفردات کا اردو ترجمہ پیشِ خدمت ہے:

الھُجر : کے معنی ہذیان کے ہیں ، جس کے برا ہونے کی وجہ سے اسے ترک کر دینا چاہیے اور حدیث میں ہے :
لا تَقُوࣿلُوا ھُجرا
فحش کلامی نا کرو!
اور “ اَھࣿجر فلانٌ “کے معنی ہے ( اس نے قصدا فُحش کلامی کی
اور “ ھجر المریض” کے معنی (مریض کے بے ہوشی میں بڑبڑانے کے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔الخ
(اردو ترجمہ المفردات ج ۲ ص ۵۸۷)

(جاری)