د

رسول الله ﷺ کے دو کامل خلیفہ (جانشین)
رسول الله ﷺ کی ایک مشہور متواتر حدیث ہے جس کو حدیث ثقلین کہتے ہے.اسکے بے شمار طرق اهل سنت کی کتب میں موجود ہے لیکن کچھ طرق ایسے ہے جن میں لفظ ” ثقلین (دو باری چیزیں ) کے بدلے خلیفتین (دو خلیفے ) کا لفظ آیا ہے. روایت یوں ہے......

حدثني أبي ثنا الأسود بن عامر ثنا شريك عن الركين عن القاسم بن حسان عن زيد بن ثابت قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم اني تارك فيكم خليفتين كتاب الله حبل ممدود ما بين السماء والأرض أو ما بين السماء إلى الأرض وعترتي أهل بيتي وانهما لن يتفرقا حتى يردا علي الحوض....

زید بن ثابت رض سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا بے شک میں تمہارے درمیان دو خلیفے چھوڑے جارہا ہوں : ایک الله کی کتاب جس کی رسی آسمان اور زمین کے درمیان کھچی ہوئی ہے اور دوسرے میری عترت (اہل بیت) یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ قیامت کے روز حوض کے نزدیک مجھ سے ملاقات کریں گے.
(1)مسند الإمام أحمد بن حنبل....
المؤلف: الإمام ابن حنبل؛ أحمد بن محمد بن حنبل، أبو عبد الله، الشيباني الوائلي
المحقق: شعيب الأرناؤوط
(2)المعجم الكبير (معجم الطبراني الكبير)
المؤلف: الطبراني؛ سليمان بن أحمد بن أيوب بن مطير اللخمي الشامي، أبو القاسم
المحقق: حمدي عبد المجيد السلفي
(3)فضائل الصحابة
المؤلف: أحمد بن حنبل
المحقق: وصي الله بن محمد عباس..... (4)الكتاب: السنة
المؤلف: أبو بكر بن أبي عاصم وهو أحمد بن عمرو بن الضحاك بن مخلد الشيباني (ت ٢٨٧هـ)
المحقق: محمد ناصر الدين الألباني...
(5)صحيح الجامع الصغير وزيادته (الفتح الكبير)
المؤلف: الألباني، أبو عبد الرحمن محمد ناصر الدين....

اس حدیث کو صحیح قرار دینے والے اھل سنت محدثین

(1) الهيثمي؛ علي بن أبي بكر بن سليمان الهيثمي نے اپنی کتاب مجمع الزوائد ومنبع الفوائد میں دو جگہ پر اس روایت کی سند کو صحیح قرار دیا ہے..
رواه الطبراني في الكبير ورجاله ثقات....
رواه أحمد وإسناده جيد
مجمع الزوائد، ج 9، ص163...."

(2)محمد ناصر الدين الألباني نے اپنی کتاب صحيح الجامع الصغير وزيادته میں صحیح قرار دیا ہے....

(3)سلفی محقق شیخ وصی الله عباس نے اسکو روایت کے بارے میں ” حسن لغیرۃ ” لكها ہے..... فضائل الصحابہ....

(4) شعيب الأرناؤوط نے صحیح قرار دیا ہے مسند الإمام أحمد بن حنبل.....
(5)حمزه احمد الزين اسناده حسن
(6)الإمام جلال الدين السييوطي الجامع الصغير في أحاديث البشير النذير
علامہ مناوی عالم بزرگ اہل سنت نے اس بارے میں لکھا ہے کہ:

قال ( الشريف ): هذا الخبر يفهم وجود من يكون أهلا للتمسك به من أهل البيت والعترة الطاهرة في كل زمن إلي قيام الساعة حتي يتوجه الحث المذكور إلي التمسك به كما أن الكتاب كذلك فلذلك كانوا أمانا لأهل الأرض فإذا ذهبوا ذهب أهل الأرض ) حم طب عن زيد بن ثابت ( قال الهيثمي: رجاله موثقون ورواه أيضا أبو يعلي بسند لا بأس به والحافظ عبد العزيز بن الأخضر.

یہ حدیث ہمیں سمجھاتی ہے کہ اہل بیت میں سے ایک بندہ ہمیشہ قیامت تک موجود ہے، تا کہ اس سے تمسک کرنے کا معنی پیدا ہو سکے، جس طرح کہ قرآن بھی ایسے ہی ہے، اسی وجہ سے وہ (اہل بیت) اہل زمین کے لیے باعث امان ہیں اور جب وہ نہ ہوں تو اہل زمین بھی نابود ہو جائیں گے۔

اس روایت کو احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں اور طبرانی نے معجم كبير زيد ابن ثابت سے نقل کیا ہے اور ہیثمی نے کہا ہے کہ اس روایت کے راوی موثق ہیں۔ اسی طرح ابو يعلی اور حافظ عبد العزيز ابن اخضر نے بھی اسی روایت کو قابل قبول سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

المناوي، عبد الرؤوف بن علي، فيض القدير شرح الجامع الصغير، ج3، ص15، المكتبة التجارية الكبري - مصر، 1356هـ......
اس مہم روایت سے بعض قابل توجہ نتائج حاصل ہوتے ہیں:

1. قرآن و اہل بيت عليہم السلام ہر دو رسول خدا (ص) کے جانشین ہیں، انکی جانشینی کو قبول نہ کرنا یا ان میں سے ایک کی اتباع و پیروی نہ کرنا، یہ رسول خدا (ص) کے فرمان کو ردّ کرنے کے مترادف ہے کہ جو انسان کے لیے ابدی گمراہی کا سبب بنتی ہے:

وَما كانَ لِمُؤْمِنٍ وَلا مُؤْمِنَةٍ إِذا قَضَي اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلالاً مُبيناً.

کسی بھی مؤمن مرد اور مؤمنہ عورت کے لیے اپنی مرضی کرنا جائز نہیں ہے، جب خدا اور اسکا رسول کسی کام کے بارے میں فیصلہ کریں اور جو بھی خدا اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ واضح گمراہی میں مبتلا ہوا ہے۔

سورہ أحزاب آیت 36

اس بیان کے ساتھ وہ لوگ جہنوں نے اہل بیت کی اطاعت کو چھوڑ کر دوسروں کی اطاعت کی ہے، واضح ہو جاتا ہے کہ انھوں نے اپنے آپکو کس گمراہی میں ڈالا ہے ؟!

.2 اہل بیت کی اطاعت مطلق (اطاعت بے چون و چرا) واجب ہے، جس طرح کہ قرآن کی بھی اطاعت مطلق واجب ہے، کوئی بھی یہ دعوی نہیں کر سکتا کہ قرآن کی اطاعت کے ساتھ، اہل بیت (ع) کی اطاعت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ اس صورت میں رسول خدا (ص)کی نافرمانی کرنا لازم آئے گا۔...

3. یہ دونوں (قرآن و اہل بیت) قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے۔

وَإِنَّهُمَا لَنْ يَتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ،

بالکل اسی نکتے سے اہل بیت کی اطاعت مطلق ثابت ہوتی ہے، کیونکہ اگر اہل بیت معصوم نہ ہوں تو اور ان سے گناہ اور خطا سرزد ہو تو، اسی وقت اتنی ہی مقدار میں قرآن سے دور ہو جائیں گے، اور ایسا ہونا رسول خدا کے واضح فرمان کے خلاف ہے، پس جس طرح کہ قرآن ہر خطا سے محفوظ ہے اور کوئی بھی باطل چیز اس میں موجود نہیں ہے، رسول خدا کے اہل بیت بھی بالکل ایسے ہی ہیں۔

لا يَأْتيهِ الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ لا مِنْ خَلْفِهِ تَنْزيلٌ مِنْ حَكيمٍ حَميد.

کسی قسم کا کوئی باطل نہ سامنے سے اور نہ ہی پیچھے سے، اس (قرآن) میں نہیں آتا، کیونکہ خداوند حکیم و حمید کی طرف سے نازل ہوا ہے۔

سورہ فصلت آیت 42.....
جس طرح کہ قرآن کریم « تِبْياناً لِكُلِّ شَيْ ء » (سورہ نحل آیت 89) ہے، اہل بیت بھی بالکل اسی طرح ہیں، کیونکہ جو ہمیشہ قرآن کے ساتھ ہے، وہ تمام حقائق قرآن سے آگاہ ہوتا ہے، پس امام معصوم کو بھی « تبيانا لكل شيء » ہونا چاہیے، تا کہ قرآن و اہل بیت کے درمیان عدم جدائی عملی طور پر بھی ثابت ہو سکے۔

لہذا اس روایت اور اسی مطلب کی طرح دوسری روایات کے مطابق قرآن اور اہل بیت ہر چیز میں آپس میں مساوی و ہم پلہ ہیں، پس قرآن کی حقیقی طور پر پیروی کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اس پیروی کو مکمل کرنے کے لیے، اہل بیت کی بھی پیروی کریں اور دوسروں کی پیروی کرنے سے اجتناب کریں، کیونکہ ایک دل میں دو محبتیں نہیں آ سکتیں اور اسکے علاوہ غدیر کے میٹھے اور صاف پانی سے سیراب ہونے والا عقلمند انسان خود کو سقیفے کے کھارے اور گندے پانی سے آلودہ نہیں کرتا۔

وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُهُ بِإِذْنِ رَبِّهِ ۖ وَالَّذِي خَبُثَ لَا يَخْرُجُ إِلَّا نَكِدًا ۚ كَذَٰلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَشْكُرُونَ،

اور جو شہر پاکیزہ ہے اس کا سبزہ اس کے رب کے حکم سے نکلتا ہے، اور جو خراب ہے اس میں سے جو کچھ نکلتا ہے ناقص ہی ہوتا ہے، اسی طرح ہم شکر گزاروں کے لیے مختلف طریقوں سے آیتیں بیان کرتے ہیں۔

سورہ اعراف آیت 58......
#طوسی