علامہ بلاذری (متوفی 270 ہجری) :

إن أبابكر آرسل إلي علي يريد البيعة ، فلم يبايع ، فجاء عمر و معه فتيلة . فتلقته فاطمة علي الباب فقالت فاطمة : يابن الخطاب ! أتراك محرّقا عليّ بابي ؟! قال : نعم ، و ذلك أقوي فيما جاء به أبوك .

ابوبکر نے کچھ لوگوں کو علی سے بیعت لینے کے لیے بھیجا، جب علی نے ابوبکر کی بیعت نہ کی تو اس نے عمر کو حکم دیا کہ جاؤ اور علی کو میرے پاس لے کر آؤ۔ عمر ہاتھ میں آگ جلتی مشعل لے کر فاطمہ کے گھر کی طرف گیا۔ فاطمہ گھر کے دروازے کے پیچھے آئی اور کہا: اے خطّاب کے بیٹے ! کیا تو میرے گھر کے دروازے کو آگ لگانا چاہتا ہے ؟ عمر نے کہا: ہاں ! میرا یہ کام جو کچھ (شریعت) تمہارے والد لے کر آئے تھے، اسکو محکم تر کرے گا۔

انساب الاشراف، بلاذري، ج1، ص586

یہ کونسی شریعت اور خلافت تھی کہ جو رسول خدا (ص) کے گھر کو آگ لگانے سے محکم اور استوار ہوتی ہے اور کیا خود رسول خدا نے اسی دین اور شریعت کو محکم اور استوار کرنے کے لیے کفار اور مشرکین کے گھروں کو بھی آگ لگائی تھی ؟؟؟ !!!

بحث سندی:

بلاذری نے اس روایت کو اس سند کے ساتھ نقل کیا ہے:

المدائني، عن مسلمة بن محارب، عن سليمان التيمي وعن ابن عون: أن أبابكر …

مدائنی:

ذہبی نے اسکے بارے میں لکھا ہے:

المدائني * العلامة الحافظ الصادق أبو الحسن علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف المدائني الاخباري . نزل بغداد ، وصنف التصانيف ، وكان عجبا في معرفة السير والمغازي والأنساب وأيام العرب ، مصدقا فيما ينقله ، عالي الاسناد .

ذہبی نے یحیی ابن معین سے نقل کرتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ:

قال يحيي : ثقة ثقة ثقة .( قال احمد بن أبي خثيمة) سألت أبي : من هذا ؟ قال : هذا المدائني .

يحيی ابن مَعين نے اسکے بارے میں تین بار کہا ہے: وہ ثقہ ہے، وہ ثقہ ہے، وہ ثقہ ہے، یعنی اسکی نقل کردہ روایات قابل اعتماد ہیں۔

احمد ابن ابی خثيمہ نے کہا ہے کہ:

میں نے اپنے والد سے پوچھا کہ اس شخص کا کیا نام ہے کہ جسکے بارے میں یحیی ابن معین نے اس مطلب کو ذکر کیا ہے، میرے والد نے کہا: اسکا نام مدائنی ہے۔

اور اس نے یہ بھی نقل کیا ہے کہ:

وكان عالما بالفتوح والمغازي والشعر ، صدوقا في ذلك .

سير أعلام النبلاء – الذهبي – ج 10 – ص 401

ابو الحسن مدائنی عالم اہل سنت کہ جو تاریخ، جنگوں، غزوات اور اشعار کے بارے میں علم رکھنے والا انسان تھا۔ لہذا ان تمام امور میں وہ اپنے زمانے کا صادق اور عالم شمار ہوتا تھا۔

اور ابن حجر نے بھی اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

قال أبو قلابة: حدثت أبا عاصم النبيل بحديث فقال عمن هذا قلت: ليس له إسناد ولكن حدثنيه أبو الحسن المدائني قال لي سبحان الله أبو الحسن أستاذ . ( إسناد )

ابو قلابۃ کہتا ہے کہ: میں نے اس حدیث کو ابا عاصم النبيل کے لیے پڑھا تو اس نے کہا کہ تم نے اس حدیث کو کس سے سنا ہے ؟ ابو قلابہ نے کہا کہ اس حدیث کی سند تو میرے پاس نہیں ہے، لیکن اس حدیث کو میرے لیے ابو الحسن مدائنی نے نقل کیا ہے اور میں نے اس سے سنا ہے، ابا عاصم نے کہا: اس خدا کی ذات پاک ہے، ابو الحسن مدائنی علم حدیث کے استاد ہیں۔

لسان الميزان، ج 5 ، ص 82 ، ذيل ترجمه علي بن محمد ، أبوالحسن المدائني الاخباري ، رقم 5945.

بعض کتب میں لفظ استاد کی جگہ، لفظ اسناد ذکر ہوا ہے۔ اس صورت میں عبارت کا معنی ایسے ہو گا:

اس حدیث کی خود ابو الحسن مدائنی سند ہیں اور انکا اس حدی‍ث کو نقل کرنا ہی کافی ہے۔

ابو جعفر طبری نے کہا ہے کہ:

وقال أبو جعفر الطبري كان عالماً بأيام الناس صدوقاً في ذلك۔

مدائنی علم تاریخ کا عالم اور تاریخ کو نقل کرنے میں بہت سچا انسان تھا۔

لسان الميزان، ج 5 ، ص 82 ، ذيل ترجمه علي بن محمد ، أبوالحسن المدائني الاخباري ، رقم 5945.

مسلمۃ ابن محارب :

ابن حبان نے اسکو اپنی كتاب الثقات میں ثقہ قرار دیا ہے، اسی وجہ سے اس راوی کے مجہول ہونے کا فرض، بالکل غلط ہو گا۔

الثقات ـ ابن حبان ـ ج7، ص 490 .

سليمان التِيْمی :

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں لکھا ہے کہ:

قال الربيع بن يحيي عن شعبة ما رأيت أحدا أصدق من سليمان التيمي كان إذا حدث عن النبي صلي الله عليه وسلم تغير لونه.

ربیع ابن یحیی نے شعبۃ ابن حجاج سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ: میں نے کسی کو سلیمان التیمی سے زیادہ سچا نہیں دیکھا، وہ جب بھی رسول خدا سے حدیث کو نقل کرتا تھا تو اسکے چہرے کا رنگ تبدیل ہو جاتا تھا۔

تهذيب الكمال ج 12، ص8 ، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ،أبو المعتمر البصري ، رقم 2531و الجرح والتعديل: ج4 ، ص 124 ترجمة سليمان التيمي ، رقم 539 .

ابو بحر البکراوی نے سلیمان کے بارے میں کہا ہے کہ:

قال أبو بحر البكراوي عن شعبة شك ابن عون وسليمان التيمي يقين.

ابو بحر البكراوی نے شعبۃ ابن حجاج سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ ابن عون، شک ہے اور سلیمان التیمی ، یقین ہے۔

تهذيب التهذيب ج 4، ص 176، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341 ؛ تهذيب الكمال ج 12، ص8 ، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ،أبو المعتمر البصري ، رقم 2531.

احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نے کہا ہے کہ:

وقال عبدالله بن احمد عن أبيه ثقة.

عبد الله ابن احمد ابن حنبل نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ: سلیمان التیمی ایک ثقہ اور قابل اعتماد انسان ہے۔

تهذيب التهذيب ج 4، ص 176، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341

يحيی ابن معين اور نَسائی نے سلیمان کے بارے میں لکھا ہے کہ:

قال ابن معين والنسائي ثقة.

يحيی ابن معين اور نَسائی نے بھی اسے ثقہ اور مورد اطمینان قرار دیا ہے۔

تهذيب التهذيب ج 4، ص 176، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341؛ تهذيب الكمال ج 12، ص8 ، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ،أبو المعتمر البصري ، رقم 2531.

عجلی نے بھی سلیمان کے بارے میں کہا ہے کہ:

قال العجلي تابعي ثقة فكان من خيار أهل البصرة.

معرفة الثقات ج 1، ص 430، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 670 ؛

تهذيب التهذيب ج 4، ص 176، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341؛

تهذيب الكمال ج 12، ص8 ، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ،أبو المعتمر البصري ، رقم 2531.

عالم اہل سنت عجلی نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ: وہ تابعی اور قابل اعتماد ہے اور اہل بصرہ کے بہترین افراد میں سے ہے۔

محمد ابن سعد صاحب كتاب الطبقات الكبری نے سليمان التيمی کے بارے میں کہا ہے کہ:

كان ثقة كثير الحديث وكان من العباد المجتهدين وكان يصلي الليل كله يصلي الغداة بوضوء عشاء الآخرة.

وہ ایک مورد اعتماد فرد ہے، اور اس نے بہت سی احادیث کو نقل کیا ہے، وہ مجتہد اور عبادت گذار بندہ تھا، وہ ساری رات نماز پڑھا کرتا تھا اور وہ صبح کی نماز کو گذشتہ رات نماز عشاء کے لیے کیے گئے وضو کے ساتھ پڑھتا تھا۔ (یعنی ساری رات باوضو رہتا تھا)

الطبقات الكبري ـ ابن سعد ـ ج7 ، ص 188، ترجمه سليمان التيمي ، رقم 3198، چاپ دار الكتب العلمية ـ بيروت.

قال الثوري حفاظ البصرة ثلاثة فذكره فيهم.

ثوری نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ شہر بصرہ میں احادیث کے تین ہی حافظ ہیں ( یعنی جنکی قوت حافظہ بہت قوی تھی)، ثوری نے ان تین میں سے ایک اسی سليمان التيمی کو ذکر کیا ہے۔

تهذيب التهذيب ج 4، ص 176، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341

و تهذيب الكمال ج 12، ص9 ، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ،أبو المعتمر البصري ، رقم 2531

و الجرح والتعديل: ج4 ، ص 124، ترجمة سليمان التيمي ، رقم 539.

ابن مدینی نے بھی سلیمان تیمی کے بارے میں بیان کیا ہے کہ:

قال ابن المديني عن يحيي ما جلست إلي رجل اخوف لله منه.

علی ابن المدينی نے يحيی ابن سعيد قطان سے نقل کیا ہے کہ وہ کہا کرتا تھا کہ: میں کسی شخص کے پاس نہیں بیٹھا، مگر یہ کہ ان سب میں سب سے زیادہ خدا سے ڈرنے والا سلیمان التیمی ہے۔ یعنی سلیمان التیمی بہت زیادہ متقی اور خدا خوف بندہ تھا۔

تهذيب التهذيب ج 4، ص 176، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341

و تهذيب الكمال ج 12، ص9 ، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، أبو المعتمر البصري ، رقم 2531.

محمد ابن علی الوراق بھی سلیمان تیمی کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ:

قال محمد بن علي الوراق عن أحمد بن حنبل كان يحيي بن سعيد يثني علي التيمي وكان عنده عن أنس أربعة عشر حديثا ولم يكن يذكر اخباره.

محمد ابن علی الوراق نے احمد ابن حنبل سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ: يحيی ابن سعيد قطان)، سليمان التيمی کی مدح و تعریف کیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ انس ابن مالک کی 14 روایات سلیمان کے پاس تھیں، لیکن پھر بھی یحیی نے ان روایات کو ذکر نہیں کیا تھا۔

تهذيب التهذيب ج 4، ص 176، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341؛

تهذيب الكمال ج 12، ص11 ، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ،أبو المعتمر البصري ، رقم 2531.

ابن حبان نے اپنی كتاب الثقات میں کہا ہے کہ:

كان من عباد أهل البصرة وصالحيهم ثقة واتقانا وحفظا وسنة.

سلیمان التیمی اہل بصرہ کے عبادت گذار اور صالحان میں سے تھا، وہ ایک مورد اعتماد، اہل دقت ، حافظان حدیث میں سے اور سنت کو بہت زیادہ اہمیت دینے والا تھا۔

الثقات ج4، ص 300، ترجمه سليمان بن طرخان و تهذيب التهذيب ج 4، ص 177، ترجمه سليمان بن طرخان التيمي ، رقم 341 .

عبد الله ابن عون :

بعض نے اشکال کیا ہے کہ روایت اس مقام پر مقطوع ہے، کیونکہ اس نے صحابہ سے روایت کو نقل نہیں کیا، حالانکہ عالم بزرگ اہل سنت صفدی نے ابن عون کے بارے میں کہا ہے ک:

كان يمكنه السماع من طائفةٍ من الصحابة.

اس (ابن عون) نے روایات کو صحابہ سے سنا تھا۔

الوافي بالوفيات ج 17، ص 390، ذيل ترجمه الحافظ المُزَني عبدالله بن عون بن أرطبان أبوعون المزني ، رقم 320.

بلکہ اس سے بھی بالا تر یہ کہ بعض روایات موجود ہیں کہ جو دلالت کرتی ہیں کہ ابن عون خود بھی صحابی تھا۔ جسیا کہ ابن سعد نے کتاب الطبقات الكبری میں نقل کیا ہے کہ:

أخبرنا بكار بن محمد قال : كان بن عون يتمني أن يري النبي ، صلي الله عليه وسلم ، فلم يره إلا قبل وفاته بيسير فسر بذلك سرورا شديدا …

ابن عون بہت زیادہ چاہتا تھا کہ رسول خدا کی زیارت کرے، آخر کار اس کو یہ توفیق نصیب ہوئی کہ اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں ان حضرت کی زیارت کر لی اور وہ اس وجہ سے بہت خوش تھا۔۔۔۔۔

الطبقات الكبري ج7 ، ص 198، ذيل ترجمه عبدالله بن عون بن أرطبان ، رقم : 3232 ، چاپ دارالكتب العلمية (بيروت – لبنان)

حتی اگر فرض بھی کر لیں کہ ابن عون تابعی تھا، پھر بھی اس کا روایت پر کوئی اثر نہیں پڑتا، کیونکہ اہل سنت کے علم رجال کے باپ شعبہ ابن حجاج نے اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

شك ابن عون أحب إلي من يقين غيره.

میرے لیے ابن عون کا شک، دوسروں کے یقین سے بہتر ہے۔

مقدمة الجرح والتعديل: 145.

اور علی ابن مدينی عالم بزرگ علم رجال اہل سنت نے کہا ہے کہ:

قال علي بن المديني: جمع لابن عون من الاسناد ما لم يجمع لاحد من أصحابه. سمع بالمدينة من القاسم وسالم، وبالبصرة من الحسن وابن سيرين، وبالكوفة من الشعبي وإبراهيم، وبمكة من عطاء ومجاهد، وبالشام من رجاء بن حيوة ومكحول.

ابن عون کے پاس اس قدر مستند روایات موجود ہیں کہ اسکے اصحاب میں سے کسی کے پاس بھی اس قدر مستند روایات موجود نہیں ہیں۔ اسکے اساتذہ شہر مدینہ میں قاسم و سالم، شہر بصرہ میں حسن بصری و ابن سيرين، کوفہ میں عامر شعبی و ابراہیم، مکہ میں عطاء و مجاہد اور شام میں رجاء ابن حیوہ و مکحول تھے۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں لکھا ہے کہ:

قال علي: وهذا قبل أن يحدث ابن عون، ولو كان ابن عون قد حدث ما قدم عليه عندي أحدا.

ابن عون کے کرسی تدریس پر بیٹھنے سے پہلے علی ابن مدائنی کہتا تھا کہ: اگر ابن عون احادیث کو نقل کرنا شروع کرے تو میں کسی کو بھی اس پر ترجیح نہیں دوں گا۔ یعنی فقط اس سے ہی حدیث کو نقل کروں گا۔

تهذيب الكمال ج 15 ، ص 397 ، ذيل ترجمه عبدالله بن عون بن أرطبان ، رقم : 3469.

قال إسماعيل بن عمرو البجلي، عن سفيان الثوري: ما رأيت أربعة اجتمعوا في مصر مثل أربعة اجتمعوا بالبصرة: أيوب، ويونس وسليمان التيمي، وعبد الله بن عون.

اسماعيل ابن عمرو بجلی نے سفيان ثوری سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: ان چار اشخاص کو کہ جنکو میں نے مصر میں دیکھا تھا، وہ علم و فضیلت میں، ان چار اشخاص کے برابر نہیں ہو سکتے کہ جنکو میں نے بصرہ میں دیکھا تھا۔

تهذيب الكمال ج 15 ، ص 398 ، ذيل ترجمه عبدالله بن عون بن أرطبان ، رقم : 3469.

وقال محمد بن سلام الجمحي: سمعت وهيبا يقول: دار أمر البصرة علي أربعة، فذكر هؤلاء.

وقال أحمد بن عبدالله العجلي : أهل البصرة يفخرون بأربعة، فذكرهم.

احمد ابن عبد الله عجلی نے کہا ہے کہ: اہل بصرہ چار اشخاص پر افتخار کیا کرتے تھے، پھر اس نے ان چاروں کے ناموں کو ذکر کیا۔

معرفة الثقات ج 2 ، ص 50 ، ذيل ترجمه عبدالله بن أرطبان ، رقم 934، چاپ : المكتبة الدار- المدينة المنورة .

وقال الاصمعي، عن شعبة: ما رأيت أحدا بالكوفة إلا وهؤلاء الاربعة أفضل منه ، فذكرهم .

اصمعی نے شعبہ سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں نے کوفہ میں کسی کو بھی ان چاروں سے بالا و برتر نہیں دیکھا، پھر اس نے ان چاروں کے ناموں کو ذکر کیا۔

تهذيب الكمال ج 15 ، ص 398 ، ذيل ترجمه عبدالله بن عون بن أرطبان ، رقم : 3469.

قال محمد بن أحمد بن البراء: قال علي بن المديني، وذكر هشام بن حسان وخالد الحذاء وعاصم الاحول وسلمة بن علقمة وعبد الله بن عون و أيوب، فقال: ليس في القوم مثل ابن عون و أيوب .

محمد ابن احمد ابن البراء کہتا ہے کہ جب علی ابن المدينی ہشام ابن حسان ، خالد الحذاء ، عاصم الاحول ، سلمۃ ابن علقمۃ ، عبد الله ابن عون اور ايوب کے بارے میں بات کر رہا تھا تو اس نے کہا: علمائے حدیث میں کوئی بھی ابن عون اور ایوب کی طرح نہیں ہے۔

الجرح والتعديل: ج5 ، ص131 ، باب العين ، ذيل ترجمه عبدالله بن عون البصري ، رقم : 605.

وقال أبو داود الطيالسي ، عن شعبة: ما رأيت مثل أيوب ويونس وابن عون .

ابو داود طيالسی نے شعبۃ سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: شعبہ نے کہا کہ میں نے ابھی تک کسی کو بھی ایوب، یونس اور ابن عون کی طرح نہیں دیکھا۔

الجرح والتعديل: ج5 ، ص133، باب الالف ، ذيل ترجمه أيوب بن أبي تميمة ، رقم : 4 ؛ الجرح والتعديل: ج5 ، باب العين ، ص 145.

قال حفص بن عمرو الربالي ، عن معاذ بن معاذ: سمعت هشام بن حسان يقول: حدثني من لم تر عيناي مثله – فقلت في نفسي: اليوم يستبين فضل الحسن وابن سيرين – قال: فأشار بيده إلي ابن عون وهو جالس.

حفص ابن عمرو ربالی نے معاذ ابن معاذ سے نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں نے ہشام ابن حسان سے سنا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ میں نے کسی ایسے سے حدیث کو سنا ہے کہ میری آنکھوں نے علم و فضیلت میں اس جیسا نہیں دیکھا تھا، میں نے اپنے آپ سے کہا کہ آج تو حسن بصری اور ابن سیرین کے فضائل زندہ و ظاہر ہو گئے ہیں، میں اسی خیال میں تھا کہ اچانک ہشام ابن حسان نے اپنی انگلی سے وہاں پر بیٹھے ہوئے، ابن عون کی طرف اشارہ کیا۔

تهذيب الكمال ج 15 ، ص 399 ، ذيل ترجمه عبدالله بن عون بن أرطبان ، رقم : 3469.

قال الربالي: فذكرته للخليل بن شيبان ، فقال: سمعت عمر بن حبيب يقول: سمعت عثمان البتي يقول: ما رأت عيناي مثل ابن عون.

ربالی کہتا ہے کہ: میں نے اس بات کو خلیل ابن شیبان کے لیے نقل کیا، اس نے کہا کہ میں نے بھی اسکو عمر ابن حبیب سے سنا تھا کہ اس نے کہا کہ عثمان بتی کہتا تھا کہ: میری آنکھوں نے فضیلت اور برتری میں کسی کو ابن عون کی مانند نہیں دیکھا۔

تهذيب الكمال ج 15 ، ص 399 ، ذيل ترجمه عبد الله بن عون بن أرطبان ، رقم : 3469.

قال نعيم بن حماد، عن ابن المبارك: ما رأيت أحد ذكر لي قبل أن ألقاه ثم لقيته، إلا وهو علي دون ما ذكر لي إلا حيوة، وابن عون، وسفيان، فأما ابن عون: فلوددت أني لزمته حتي أموت أو يموت .

نعيم ابن حماد نے عبد الله ابن مبارک سے نقل کیا ہے کہ: جس کسی کے بھی حالات زندگی کو میرے لیے نقل کیا جاتا تھا، اس سے ملاقات کے بعد معلوم ہوتا تھا کہ وہ اتنی فضیلت کا مالک بھی نہیں ہے کہ جتنا میرے لیے بیان کیا گیا ہے، مگر حیوۃ ، ابن عون اور سفیان۔ ابن عون اس قدر با فضیلت تھا کہ میں چاہتا تھا کہ اس وقت تک اس سے علم حاصل کروں یہاں تک کہ یا میں دنیا سے چلا جاؤں یا وہ۔

تهذيب الكمال ج 15 ، ص 400 ، ذيل ترجمه عبدالله بن عون بن أرطبان ، رقم : 3469.

قال ابن المبارك: ما رأيت أحدا أفضل من ابن عون .

عبد الله ابن مبارک نے کہا ہے کہ: میں نے کسی کو بھی ابن عون سے افضل نہیں دیکھا۔

تاريخ البخاري الكبير: ج5 ، ص 163 ، ذيل ترجمة عبدالله بن عون بن أرطبان ، رقم : 512.

ابن حبان کہتا ہے کہ:

من سادات أهل زمانه عبادة وفضلا وورعا ونسكا وصلابة في السنة، وشدة علي أهل البدع ،

(ابن عون) اپنے زمانے میں موجود لوگوں کی نسبت عبادت، فضیلت، شبہات سے دوری، اخلاق، سنت نبوی پر عمل کرنے اور بدعت گزاروں کا مقابلہ کرنے کے لحاظ سے، بزرگان میں سے تھا۔

الثقات: ج7 ، ص3.

پس نتیجہ یہ ہوا کہ:

اولاً : علمائے اہل سنت نے واضح طور پر کہا کہ وہ صحابی تھا اور اس نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں رسول خدا (ص) کی زیارت کی تھی، لہذا وہ حضرت صدیقہ شہیدہ (س) کے گھر پر حملے کے وقت وہاں موجود تھا اور اس ماجرے کا چشم دید گواہ تھا۔

ثانياً : اگر فرض بھی کریں کہ یہ روایت منقطع ہو اور خود ابن عون کا کلام ہو، پھر بھی ہمارا دعوی ثابت کرنے کے لیے کافی ہے، کیونکہ اتنی علمی فضیلت والی شخصیت جیسے ابن عون کا اعتراف کرنا، خود ہمارے لیے بہترین دلیل ہے۔