ابن قتيبہ دينوری (متوفی 276 ہجری) :

وإن أبا بكر رضي الله عنه تفقد قوما تخلفوا عن بيعته عند علي كرم الله وجهه ، فبعث إليهم عمر ، فجاء فناداهم وهم في دار علي ، فأبوا أن يخرجوا فدعا بالحطب وقال : والذي نفسه عمر بيده . لتخرجن أو لأحرقنها علي من فيها ، فقيل له : يا أبا حفص ، إن فيها فاطمة ؟ فقال : وإن

في رواية أن عمر جاء إلي بيت فاطمة في رجال من الأنصار ونفر قليل من المهاجرين .

ابوبکر نے ، ان لوگوں کہ جہنوں نے ابوبکر کی بیعت نہیں کی تھی، وہی کہ جو علی کے پاس جمع ہوئے تھے، عمر کو ان لوگوں کے پاس بھیجا، عمر نے انکو بلند آواز سے پکارا، لیکن انھوں نے اسکی کوئی پروا نہیں کی اور گھر سے باہر نہ نکلے۔ عمر نے ایندھن منگوایا اور کہا: اس خدا کی قسم کہ جسکے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ہے، گھر سے باہر آؤ، ورنہ میں اس گھر کو سب گھر والوں سمیت آگ لگا دوں گا۔ عمر کو کہا گیا کہ اے ابا حفص ! اس گھر میں اس وقت فاطمہ بھی موجود ہیں، عمر نے کہا: ہوتی ہے تو ہوتی رہے !!!

الامامة والسياسة – ابن قتيبة الدينوري ، تحقيق الشيري – ج 1 – ص 30 .

ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ: عمر بہت سے انصار اور مہاجرین کے افراد کے ساتھ حضرت فاطمہ زہرا کے دروازے پر آیا تھا۔

ابن قتيبہ نے مزید اضافے کے ساتھ بیان کیا ہے کہ:

فاطمہ نے جب گھر پر حملہ کرنے والوں کی آواز کو سنا تو بلند آواز سے فریاد کی:

يا ابت يا رسول الله (صلي الله عليه وآله وسلم) ماذا لقينا بعدك من ابن الخطاب و ابن ابي قحافه ….

اے میرے بابا ! اے رسول خدا آپکے بعد ہمیں ابن خطاب (عمر) اور ابن ابی قحافہ (ابوبکر) سے کیا کیا ظلم سہنے کو ملے۔۔۔۔۔

الامامة و السياسة، ابن قتيبه، ج1، ص 30 .

کتاب الإمامۃ والسياسۃ کا ابن قتیبہ

سے ہی منسوب ہونا:

بعض بے دین اور بے انصاف وہابیوں نے ابن قتیبہ کے کتاب الإمامۃ والسياسۃ کا مصنف ہونے پر اشکال کیا ہے اور اس کتاب میں مذکورہ روایات اور حقائق کا علمی جواب نہ ہونے کی وجہ سے چاہا ہے کہ اس اشکال کے ذریعے سے اس کتاب کو قابل متنازعہ بنایا جائے۔ انکے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ:

اولاً : یہ کتاب مصر اور دوسرے اسلامی ممالک ابن قتیبہ کے نام سے بار بار شائع ہوئی ہے اور حتی اسی کتاب کے بہت سے خطی و دستی نسخے اسی مؤلف کے نام سے مصر، پیرس، لندن، ترکی اور ہندوستان کے کتاب خانوں میں بھی موجود ہیں۔

ثانياً : اہل سنت کے بہت سے گذشتہ اور ہمعصر علماء نے ابن قتیبہ کے کتاب الإمامۃ والسياسۃ کے مصنف ہونے پر تصریح کی ہے اور اس کتاب میں مذکورہ تاریخی روایات کو اپنی اپنی کتب میں ذکر کیا ہے۔ ہم یہاں پر مختصر طور پر اہل سنت کے چند علماء کے اسماء کو ذکر کرتے ہیں:

2 . ابن عربی متوفی 543 ہجری نے كتاب العواصم من القواصم:

میں بعض مطالب نقل کرنے کے ضمن میں اس کتاب کے ابن قتیبہ سے منسوب ہونے کے صحیح ہونے کا اقرار کیا ہے۔

العواصم من القواصم، ابن عربي، ص248.

3 . نجم الدين عمر ابن محمد مكی: کہ جو ابن فہد کے نام سے بھی معروف ہیں، نے كتاب اتحاف الوري باخبار  القري میں سن 93 ہجری کے واقعات کو ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:

و قال ابو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتيبة في كتاب الامامة و السياسة…»

اتحاف الوري باخبار ام القري، ابن فهد، حوادث سال 93 ه .ق .

4 . قاضی ابو عبد الله تنوزی:

کہ جو ابن شباط کے نام سے بھی معروف ہے، نے كتاب الصلۃ السمطيہ میں بھی اس کتاب کے ابن قتیبہ سے منسوب ہونے کے صحیح ہونے کا ذکر کیا ہے۔

الصلة السمطيه، ابن شباط، فصل دوم، باب 34 .

5 . تقی الدين فاسی مكی نے كتاب العقد الثمين میں:

العقد الثمين ، تقي الدين فاسي مكي ، ج6 ، ص72.

6 . شاه سلامۃ الله نے كتاب معركۃ آراء میں:

معركة الآراء ، شاه سلامة الله ، ص126 .

7 . جرجی زيدان نے كتاب تاريخ آداب اللغۃالعربيۃ میں لکھا ہے کہ:

الامامة و السياسة، هو تاريخ الخلافة و شروطها بالنظر الي طلابها من وفاة النبي الي عهد الامين و المأمون، طبع بمصر سنة 1900 و منه نسخ خطية في مكتبات باريس و لندن .

 تاريخ آداب اللغة العربية، جرجي زيدان ص/575 /574.

8 . فريد وجدی نے كتاب دايرة المعارف القرن العشرين میں لکھا ہے کہ:

اورد العلامة الدينوري في كتابه الامامة و السياسة…

۔۔۔۔۔ کو علامہ دینوری نے اپنی کتاب الامامۃ و السیاسۃ میں ذکر کیا ہے۔۔۔۔۔

دايرة المعارف القرن العشرين، فريد وجدي، ج2، ص754.

ایک دوسری جگہ پر لکھا ہے کہ:

… كتاب الامامة و السياسة لابي محمد عبدالله بن مسلم الدينوري المتوفي سنة 270 هج .

دايرة المعارف القرن العشرين، فريد وجدي، ج2، ص749 .

ثالثاً : اہل سنت کے بعض بزرگ علماء نے کتاب الامامۃ و السياسۃ کے ابن قتیبہ سے منسوب ہونے کے صحیح ہونے کا اعتراف کرنے کے باوجود اور اس کتاب میں مذکورہ تلخ تاریخی حقائق ، کہ جو بلا فاصلہ رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد پیش آئے تھے ، کی تائید کرتے ہوئے، ابن قتیبہ پر اعتراض کیا ہے کہ اس نے پردے پوشی اور تاریخی حقائق کو سنسر و تحریف کرنے کے وظیفے پر کیوں عمل نہیں کیا !!! حالانکہ اسکو بھی دوسروں کی طرح ان تاریخی حقائق کو نقل نہیں کرنا چاہیے تھا !!!

ابن عربی ناصبی نے كتاب العواصم من القواصم میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا ہے:

و من اشد شيئ علي الناس جاهل عاقل او مبتدع محتال. فاما الجاهل فهو ابن قتيبة فلم يبق و لم يذر للصحابة رسماً في كتاب الامامة و السياسة ان صحّ عنه جميع ما فيه .

ایک معاشرے کے لوگوں پر تلخ ترین اور ناگوار ترین چیزوں میں سے، ایک جاہل عالم اور دوسرا بدعت گذار، مکار انسان ہے، جاہل عالم جیسے ابن قتیبہ ہے کہ جس نے اپنی کتاب الامامۃ و السياسۃ میں صحابہ کے بارے میں رسم عیب پوشی کا خیال نہیں رکھا، البتہ اگر اس کتاب میں مذکور تمام مطالب کی نسبت اسکی طرف صحیح ہو تو۔

العواصم من القواصم ، ابن عربي ، ص248 .

البتہ قابل ذکر و توجہ ہے کہ اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ مؤرخین، مفسرین اور محدثین پر واجب ہے کہ صحابہ کے عیوب و نقائص والی تمام روایات کے بارے میں کسی قسم کی رائے کا اظہار نہ کریں، بلکہ ان روایات کو یا تو تحریف کریں یا پھر پردے پوشی کی قدیمی اور تاریخی رسم کا خیال کرتے ہوئے ، بالکل ایسی روایات کو اپنی اپنی کتب میں ذکر نہ کریں۔

ابن حجر ہيثمی نے لکھا ہے کہ:

صرح ائمتنا و غيرهم في الاصول بأنه يجب الامساك عمّا شجر بين الصحابة.

ہمارے آئمہ اور دوسرے فرقوں کے علماء نے صراحت سے بیان کیا ہے کہ سب پر واجب ہے کہ صحابہ کے آپس میں اختلافات اور لڑائی جھگڑوں وغیرہ کو ذکر کرنے سے اجتناب کریں۔

جب صحابہ کے ذاتی اختلافات کو نقل نہ کرنا واجب ہو تو، انکی نگاہ میں رسول خدا (ص) کی شہادت کے بعد حضرت علی (ع) ، صدیقہ شہیدہ (س) اور تمام اہل بیت (ع) پر صحابہ کی طرف سے ہونے والے تمام مظالم کو نقل نہ کرنا، بطریق اولی واجب ہو گا۔

ابن حجر ہيثمی نے پھر ابن قتيبہ اور اسکی كتاب کے بارے میں ایسے اظہار نظر کی ہے کہ:

… مع تأليف صدرت من بعض المحدثين كابن قتيبه مع جلالته القاضيه بأنه كان ينبغي له ان لايذكر تلك الظواهر، فإن أبي الاّ أن يذكرها فليبين جريانها علي قواعد اهل السنة…

بعض بزرگ محدثین کی لکھی گئی تالیفات جیسے ابن قتبیہ کی کتب کو دیکھتے ہوئے، معلوم ہوتا ہے کہ بہتر یہ تھا کہ وہ تاریخی واقعات کی تمام تفاصیل کو نقل نہ کرتا اور اگر اسکی رائے میں ان حوادث کو نقل کرنا ضروری تھا، تو حتمی طور پر اس پر لازم تھا کہ مذہب اہل سنت کے مطابق، ان حوادث کی تاویل اور توجیہ کرتا۔

الصواعق المحرقة ، ص93 .

ابن حجر تو سکوت اور نقل نہ کرنے کو کافی نہیں جان رہا، بلکہ تاکید کر رہا ہے کہ ان تمام واقعات کو تحریف اور تاویل کیا جانا چاہیے تھا !!!

کیا آپکو ابن حجر کے اس کلام سے تاریخ اسلام میں تحریف کرنے کے جائز ہونے کے علاوہ کوئی دوسری بات سمجھ میں آتی ہے ؟؟؟