بن

  1. (ابن ابی شيبہ (متوفی 239 ہجری) :

عالم اہل سنت ابن ابی شیبہ ، محمد ابن اسماعیل بخاری کا استاد ہے، اس نے اپنی کتاب المصنف میں لکھا ہے کہ:

أنه حين بويع لأبي بكر بعد رسول الله ( ص ) كان علي والزبير يدخلان علي فاطمة بنت رسول الله ( ص ) فيشاورونها ويرتجعون في أمرهم ، فلما بلغ ذلك عمر بن الخطاب خرج حتي دخل علي فاطمة فقال : يا بنت رسول الله ( ص ) ! والله ما من أحد أحب إلينا من أبيك ، وما من أحد أحب إلينا بعد أبيك منك ، وأيم الله ما ذاك بمانعي إن اجتمع هؤلاء النفر عندك ، إن أمرتهم أن يحرق عليهم البيت ، قال : فلما خرج عمر جاؤوها فقالت : تعلمون أن عمر قد جاءني وقد حلف بالله لئن عدتم ليحرقن عليكم البيت وأيم الله ليمضين لما حلف عليه ….

جب مدینہ کے لوگوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی، علی اور زبیر کے فاطمہ کے گھر میں اسی بارے میں گفتگو اور مشورہ کرنے کے بارے میں جب عمر ابن خطاب کو پتا چلا تو وہ فاطمہ کے گھر آیا اور کہا: اے بنت رسول اللہ ! ہمارے لیے محبوب ترین انسان تمہارے والد ہیں اور انکے بعد خود تم !!! لیکن خدا کی قسم یہ محبت مجھے اس کام سے منع نہیں کرے گی کہ تمہارے گھر میں جمع ہونے والوں کی وجہ سے ، میں حکم دوں کہ اس گھر کو آگ لگا دیں۔ [یعنی میں آپکے رسول خدا کی بیٹی ہونے کے باوجود بھی، اس گھر کو آگ لگا دوں گا]

عمر یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا۔ جب علی ، زبیر کے ساتھ اپنے گھر واپس آئے تو بنت رسول خدا نے علی اور زبیر کو بتایا کہ: عمر میرے پاس آیا تھا اور اس نے قسم کھائی ہے کہ اگر آپ لوگ دوبارہ اس گھر میں اکٹھے ہوئے تو میں اس گھر کو آگ لگا دوں گا، (حضرت زہرا نے کہا) خدا کی قسم ! وہ اپنی قسم پر عمل کر کے ہی رہے گا !

المصنف ، ج8 ، ص 572

ابن ابی شيبہ نے اس روایت کی سند کو ایسے نقل کیا ہے:

حدثنا محمد بن بشر نا عبيد الله بن عمر حدثنا زيد بن أسلم عن أبيه أسلم،

بحث سندی:

محمد ابن بشیر:

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں کہا ہے کہ:

قال عثمان بن سعيد الدارمي ، عن يحيي بن معين : ثقة .

و قال أبو عبيد الآجري : سألت أبا داود عن سماع محمد بن بشر من سعيد بن أبي عروبة فقال : هو أحفظ من كان بالكوفة،

ابو عبيد کہتا ہے کہ: میں نے داود سے محمد ابن بشير عن سعيد ابن ابی عروبہ کی نقل کردہ روایت کے بارے میں سوال کیا تو اس نے کہا: وہ قوت حافظہ کے لحاظ سے تمام اہل کوفہ سے برتر ہے۔

تهذيب الكمال ، ج24 ، ص533

اور ابن حجر نے کتاب تہذيب التہذيب میں محمد ابن بشیر کے بارے میں بھی لکھا ہے کہ:

و كان ثقة ، كثير الحديث .

و قال النسائي ، و ابن قانع : ثقة .

و قال ابن شاهين في ” الثقات ” : قال عثمان بن أبي شيبة : محمد بن بشر ثقة ثبت .

تهذيب التهذيب ، ج9 ، ص 74

عبيد الله ابن عمر ابن حفص ابن عاصم ابن عمر ابن الخطاب :

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

و قال أبو حاتم : سألت أحمد بن حنبل عن مالك ، و عبيد الله بن عمر ، و أيوب أيهم أثبت في نافع ؟ فقال : عبيد الله أثبتهم وأحفظهم وأكثرهم رواية .

و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل : قال يحيي بن معين : عبيد الله بن عمر من الثقات .

و قال أبو زرعة ، و أبو حاتم : ثقة .

و قال النسائي : ثقة ثبت .

و قال أبو بكر بن منجويه : كان من سادات أهل المدينة و أشراف قريش فضلا و علما و عبادة و شرفا و حفظا و إتقانا .

تهذيب الكلمال ، ج19 ، ص127 .

اور ابن حجر نے تہذيب التہذيب میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

قال ابن منجويه : كان من سادات أهل المدينة و أشراف قريش : فضلا و علما و عبادة و شرفا و حفظا و إتقانا . )

و قال أحمد بن صالح : ثقة ثبت مأمون ، ليس أحد أثبت في حديث نافع منه .

تهذيب التهذيب ، ج7 ، ص 40 .

زيد ابن اسلم القرشی العدوی :

یہ کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور اہل سنت کی دوسری کتب صحاح ستہ کے راویوں میں سے ایک راوی ہے۔ اسی وجہ سے اس شخص کے ثقہ ہونے میں کسی قسم کا شک و تردید نہیں ہے۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

و قال عبد الله بن أحمد بن حنبل عن أبيه ، و أبو زرعة ، و أبو حاتم ، و محمد بن سعد ، و النسائي ، و ابن خراش : ثقة .

و قال يعقوب بن شيبة : ثقة من أهل الفقه والعلم ، و كان عالما بتفسير القرآن ، له كتاب فيه تفسير القرآن .

تهذيب الكمال ، ج10 ، ص17 .

اسلم القرشی العدوی ، ابو خالد و يقال ابو زيد ، المدنی ، مولی عمر ابن الخطاب :

یہ بھی کتاب صحیح بخاری، صحیح مسلم اور اہل سنت کی دوسری کتب صحاح ستہ کے راویوں میں سے ایک راوی اور صحابی بھی ہے، اور کیونکہ اہل سنت کے نزدیک تمام صحابہ عادل ہیں، اسی وجہ سے اس راوی کے ثقہ ہونے میں شک نہیں کیا جا سکتا۔

مزی نے کتاب تہذيب الكمال میں اسکے بارے میں لکھا ہے کہ:

أدرك زمان النبي صلي الله عليه وسلم .

و قال العجلي : مديني ثقة من كبار التابعين . و قال أبو زرعة : ثقة .

تهذيب الكمال ، ج2 ، ص530

اوپر ذکر کی گئی روایت کے راویوں کے بارے میں علم رجال کی روشنی میں ثقہ ثابت ہونے کے بعد نتیجے کے طور پر یہ روایت صحیح ہو گی۔

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نے اس روایت کی تصحیح کی ہے