حضرت عثمان کی دردناک شہادت کا یہ انتہائی المناک پہلو ہے کہ وہ انتہائی غیر مقبول ہوکر قتل ہوئے یہاں تک کہ نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب سے بھرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شہر نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا۔
لیکن ان کے قتل کا سب سے زیادہ مظلومانہ پہلو یہ ہے کہ ان کا خاندان، وہ خاندان جس پر بھروسے کی وجہ سے حضرت عثمان نے سب کا اعتماد کھو دیا تھا، شہادت کے وقت ان کی مدد کو نہ آیا۔ حضرت عثمان کا محل کئی ہفتوں تک باغیوں کے محاصرے میں رہا، بات گورنروں کو ہٹانے سے اپنے اپنے صوبوں کو واپس جانے اور واپس جا کر پھر مدینے آجانے اور پھر خلیفہ کی خلافت سے دستبرداری کے مطالبے سے ان کی شہادت تک پہنچ گئی لیکن بنو امیہ سوتی رہی اور “جاہلیت کے زمانے سے رقیب” چلے آ رہے بنوہاشم کے جوان اموی خلیفہ کے گھر پہرا دیتے رہے۔ اموی شہزادوں کو تو اسی بات پر شرم سے مرجانا چاہیے تھا لیکن ان میں شرم ہوتی تو نوبت یہاں تک پہنچتی ہی کیوں۔
اور پھر بے شرمی اور ڈھٹاٸی کی انتہاء تو اس وقت ہوئی جب یہی اُموی حضرت عثمان کی میت پر گِدھ بن کر بیٹھ گئے ۔۔۔ وہی عثمان جس پر اسلام قبول کرنے کی پاداش میں اسی خاندان نے اس قدر مصائب توڑے تھے کہ انہیں حبشہ ہجرت کرنی پڑی تھی، وہی خاندان جس کی بے مروتی اس قدر مشہور تھی کہ بیعت رضوان کے موقع پر مسلمانوں کو اس افواہ پر بھی یقین آ گیا تھا کہ مکہ پر حکمرانی کر رہے اس خاندان نے اپنے ہی بھائی عثمان کو مار دیا۔
حضرت عثمان کے خون آلود کُرتے اور ان کی زوجہ کی کٹی ہوئی انگلی کی بے شرمی سے تشہیر کی گئی، سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے ان کے قصاص کے نام پر گھٹیا سیاست کی گئی، مکہ میں مقیم ام المومنین حضرت عائشہ رض کو بھی جھوٹی کہانیاں سنا کر اس غلاظت میں کھینچا گیا جس پر وہ تمام عمر گریہ کرتی رہیں، ہزاروں مسلمانوں کا خون بہایا گیا، صحابہ کرام کی تذلیل کی گئی ۔۔۔ اور آخر کار اقتدار حاصل کر لیا، خلافت کو تار تار کرکے قیصر و کسریٰ کا نظام بحال کر لیا۔
پھر بیس سال گزرے، پھر ستر سال مزید گزرے ۔۔۔ قصاصِ عثمان کے نام پر حاصل کئی گئی بادشاہت میں سب کچھ ہوا سوائے قصاصِ عثمان کے۔
بنو امیہ کی یہی ذلالت تھی جس کے پیش نظر انیس رمضان کو ضربت سے اکیس رمضان کو شہادت تک، وہ ایک بات جس کی تاکید امیر المومنین مولا علی المرتضیٰ کرم اللٰہ وجہہ الکریم بار بار کرتے رہے، وہ تھی کہ اے بنو ہاشم ! میرے بعد یہ مت کہتے پھرنا کہ ہمارے سردار کو قتل کیا گیا، میں تمہارے ہاتھوں کو مسلمانوں کے خون میں تر نہ دیکھوں۔ صلح امام حسن علیہ السلام و معاویہ کو اس تناظر میں دیکھا جائے تو سب واضح ہوجاتا ہے۔ یہ وصیت علی ع کی اور یہ صلح بنوہاشم کی ایسی شاندار و بے مثل و بے مثال اخلاقی فتح ہے جس کی بدولت آج تک ان کے دشمنوں کو چھپ چھپ کر حملے کرنے پڑتے ہیں اور ہم الحمدللہ کھل کر ان کے دشمنوں کو ذلیل کر سکتے ہیں۔

 

برادر عبداللہ شیخ