بنات رسول شیعہ مکتب کی کتابوں میں روایات ۔۔۔۔۔
اور انکی حقیقت :

زیر نظر گفتگو میں سب سے پہلے ان روایات کی بات کرتے ھیں - جو مکتب اھل بیت علیہم السلام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار دختران کی نشان دھی کرتی ھیں - اور جن حوالہ جات کو نقل کرکے معترضین مکتب تشیع پہ اعتراضات بھی کرتے ھیں ۔ کتب اربعہ میں چار دختران کے متعلق روایات موجود ھیں - جنکی وجہ سے ھمارے کافی علماء دم بخود ھیں - کہ اسکی وجہ کیا ھے ??

حالانکہ حقیقت امر یہی ھے :
کہ ھم نے کبھی بھی اپنی کتب اربعہ کو صحاح کا درجہ نہیں دیا - ھمارے مکتب میں یہ مقام فقط قرآن مجید فرقان حمید کو ھی حاصل ھے - اسلیئے کہ کتب میں تو ھر رطب و یابس موجود ھوتا ھے - اسمیں پریشانی کی کیا بات ھے ?? جس مومن کا آل محمد علیہم السلام کے ساتھ روحانی و معنوی رشتہ خلوص اور حقیقت کی بنیاد پر مربوط ھے - انکو یہ دلائل و حقائق اور یہ فضائل " ان المؤمن ينظر بنور الله " کے تحت آ جاتے ھیں ۔ لیکن جن حضرات کا ان ذوات مقدسات سے رشتہ میں خلوص و معنویت نہیں - وہ دشمن کے سامنے مذھب کی کیا ترجمانی کریں گے ?? یعنی جنکا ھدف بڑی بڑی گاڑیاں ، کوٹھیاں ، حصول پلاٹ اور بینک بیلنس ھو - وہ خواہ کسی بھی لباس میں ھوں - یا تحصیل علم کی بھی جتنی ڈگریاں یا اجازے رکھتے ھوں - وہ اللہ کے اس فرمان کے مصداق نہیں ھیں -
باقی جو لوگ ھمارے مولوی صاحبان کو ھماری کتب اربعہ سے بعض روایات دکھلا کر بہلا پھسلا رھے ھیں - وہ بیچارے روایات کو پرکھنے کی صلاحیت سے عاری ھوتے ھیں - وہ ان روایات کو آیات سمجھنے لگ جاتے ھیں - اسلیئے فورآ دشمن کے جال میں پھنس جاتے ھیں - اور پھر وہ ان پر ھر طرح کے من مانے عقائد مسلط کر دیتے ھیں -

بہرحال جو مسئلہ بنات کے حوالے سے :
کتب اربعہ اور دیگر کتب کو بطور حوالہ ذکر کیا جاتا ھے - تو ان تمام روایات کی حقیقت یہ ھے - کہ مسئلہ بنات سے متعلق ھماری کتب اربعہ ، الکافی ، من لا یحضرہ الفقیہ ، تہذیب الاحکام اور الاستبصار میں تقریباً چالیس ھزار سے زیادہ احادیث موجود ھیں - ان تمام کتب سے کوئی ایک روایت کی نشان دھی نہیں کر سکتا - جو متصل اور صحیح سند کے ساتھ ھمارے بارہ آئمہ (ع) یا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ھو - کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختران چار ھیں - ھاں البتہ ،،اصول کافی ، جلد اول باب مولد النبی (ص) میں ایک روایت بلا سند صیغہ "روى "سے ھے - اور وہ کسی معصوم (ع) کا قول بھی نہیں ھے - اور پھر وہ بلا سند مروی ھے - اسلیئے اسے صاحب کتاب شیخ ابو جعفر کلینی نے ترجمة الباب میں صیغہ مجہول سے ذکر کیا ھے -

اور صیغہء مجہول (روی) اس روایت کے ضعیف ھونے پر دلالت کرتا ھے - جیسا کہ علم حدیث کا ابتدائی طالب علم بھی جانتا ھے - لہذا اس روایت کی اسنادی پوزیشن صرف ضعیف ھی نہیں - بلکہ مجہول بھی ھے - گویا کہ "کتب اربعہ" میں اس موضوع پر کوئی صحیح السند مرفوع متصل حدیث نہیں ھے -

دوسری روایت کی حقیقت :
ھماری کتب اربعہ میں یہ روایت "مرآة العقول ، منتهى الآمال ، حيات القلوب ، بحار الانوار اور دیگر کتب میں بحوالہ قرب الاسناد حدیث نمبر 29 صفحہ 9 میں اس سند کے ساتھ مروی ھے : حدثنى مسعدة ابن صدقه قال حدثنى جعفر ابن محمد عن أبيه قال ولد رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من خديجه القاسم والطاهر وام كلثوم وفاطمة ،رقيه و زينب " -
مصعدہ بن صدقہ نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے انہوں نے اپنے والد گرامی حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ھے - کہ جناب خدیجہ سلام اللہ علیہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چار دختران اور دو بیٹے ھوئے -

یہ روایت صرف ضعیف ھی نہیں - بلکہ اسکا ابتدائی راوی مسعدہ بن صدقہ صرف ضعیف اور متروک ھی نہیں - بلکہ ،،سنی المذھب ،، ھے - علامہ مجلسی نے مرآۃ العقول میں اسکو تقریباً ستر مقامات پر ضعیف قرار دیا ھے - اور تمام شیعہ علماء رجال نے بھی اسے سنی العقیدہ قرار دیا ھے - لہذا یہ روایت اھل سنت کی ھے - اسکا تعلق مکتب تشیع سے ہرگز نہیں ھے - نیز اھل سنت علماء نے بھی اسے متروک الحدیث کہا ھے - دیکھیئے میزان الاعتدال از ذھبی حافظ ذھبی جلد 4 : صفحہ 99 - حدیث نمبر 8938 -

،، مسعده ابن صدقه عن مالك و عنه سعيد بن عمرو قال الدار قطبى متروك ،، مسعدہ سے حافظ الذھبی نے ایک روایت کو بیان کرنے کے بعد ،، ھذا موضوع ،، کہا ھے - لہذا ،، مرآۃ العقول ، منتہی الآمال ، اور بحار الانوار وغیرہ کی روایت کا مآخذ تو ،، قرب الاسناد ،، ھے - جسکی روایتی پوزیشن تو آپ نے ملاحظہ فرما لی - اور یہی حال اس مضمون کی دیگر روایات کا ھے - لہذا ھمارے مخالفین کی پیش کردہ روایات کی اسنادی پوزیشن ،، عیاں را چہ بیان ،، کی مصداق ھے -

اب ھم بنات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے " کتب صحاح ستہ " سے گفتگو پیش کرتے ھیں ۔
دختران رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم :
صحاح ستہ کی روشنی میں ۔۔۔ !!

بالفرض اگر چار دختران کی روایت کو مان لیا جائے - تو پھر اسمیں چند سوالات پیدا ھوتے ھیں - سوالات میں ھی جواب پوشیدہ ھوتے ھیں ۔ اسی لیئے ان سوالات کا جواب نہایت ضروری ھے ۔
1- اعلان نبوت کے دوسرے سال جب یہ آیت نازل ھوئی :
" انذر عشیرتک الاقربین " - اے میرے حبیب (ص) اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیں - یعنی دعوت اسلام دیں - تو اس حکم ربانی کے تحت آپ نے صحیحین کی روایات کے مطابق اپنے تمام رشتہ داروں کو نام لے لے کر بلایا -

اپنے چچا جناب عباس ، اپنی پھوپھی جناب سیدہ صفیہ ، حضرت عبد مناف کے بیٹوں اور بنی عبد المطلب کو بلایا - اور جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا کو بلایا - یعنی قریب و دور کے تمام رشتہ داروں کو دعوت اسلام دی - لیکن جناب سیدہ زھرآء سلام اللہ علیہا کے علاوہ کسی بیٹی رقیہ ، ام کلثوم ، زینب میں سے کسی کو نہیں بلایا - جبکہ آیت میں دو لفظ ھیں - ،، عشیرتک ،، کے ضمن میں تمام بنی ھاشم آگئے - اور ،، اقربین ،، میں اولاد ھے ۔ کیونکہ اقرباء میں سب سے پہلے انسان کے اپنے بچے یعنی اولاد ھوتی ھے -
لہذا اگر کسی کے پاس ھمت و جرأت ھے - تو ذخیرہ حدیث کی تمام کتب خصوصاً صحیحین اور سنن اربعہ سے دیگر دختران کی اس دعوت میں شمولیت دکھا دیں ۔۔۔ ??
اور منہ مانگا انعام بھی لیں -

اھلسنت محدثین خصوصاً امام بخاری و مسلم پر اعتراض ھونا چاھیئے ۔ کہ انکے علماء رجال و سیر کے نزدیک جناب سیدہ زھرآء سلام اللہ علیہا اس وقت پیدا ھو چکی تھیں - اور یہ بھی ایک حقیقت ھے - کہ جناب سیدہ (ص) تو تمام دختران سے سب سے چھوٹی شمار ھوتی ھیں - جیسا کہ اھلسنت کے تمام علماء نے لکھا ھے . لیکن باقی دختران جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء (ص) سے عمر میں بھی بڑی تھیں - اور پیدا بھی ھو چکی تھیں - تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ،، دعوت ذوالعشیرہ ،، میں ان تینوں بہنوں کو شامل کیوں نہیں کیا ۔۔۔ ?? کیا اسکی وجہ کوئی صاحب علم بتانا پسند فرمائیں گے ۔۔۔ ???

تو گویا وہ دختران اقرباء تو دور کی بات ھے ۔
وہ ،، عشیرہ ،، یعنی عام قبیلہ میں بھی داخل نہیں ھیں ۔
تو جو عام قبیلے میں داخل نہیں وہ سگی بیٹیاں کیسے بن گئیں ?? پھر اھلسنت کے تمام مدارس میں دورہ حدیث کی تمام کتب میں جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء (ص) کے فضائل کے ابواب تو موجود ھیں لیکن باقی کسی دختر کے فضائل کی خالی احادیث بھی موجود نہیں ھیں - ایسا کیوں ھے ۔۔۔۔ ???

چنانچہ دورہ حدیث کی پہلی کتاب ،، مشکواۃ المصابیح ،، میں باب مناقب اھل بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صفحہ 567 سے شروع ھو کر 573 پر ختم ھو جاتا ھے - جسمیں ،، فضائل اھل بیت (ع) پر تقریباً پچاس احادیث موجود ھیں - جنمیں تقریباً دس احادیث دختر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا کے فضائل میں ھیں - اسی طرح دورہ حدیث کی آخری کتاب " بخاری شریف " میں متعدد مقامات پر جناب سیدہ زھرآء سلام اللہ علیہا کے فضائل میں دسیوں احادیث مروی ھیں - نیز بخاری شریف کے ،،کتاب الفضائل میں باب مناقب قرابۃ الرسول (ص) میں چھ احادیث ھیں - اور وہ تمام احادیث جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا کے بارے میں ھیں - بطور تسلی یہ احادیث نمبرز ھیں - نوٹ بھی کیجیئے اور چیک بھی کیجیئے -

3711- 3092 - 3712 - 3714 - 3715 - 3716 -
3751- 3110 - 3729 - 3767- 5230 -
2735 - 3537 - 4771- 4726 - 4242 -

یہ تمام احادیث جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا کے فضائل اور مطالبہ میراث فدک کے بارے میں ھیں - نیز پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قرابت داروں سے متعلق سولہ احادیث ھیں - جنمیں جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء (ص) کا تذکرہ و فضائل ھیں - باقی کسی بیٹی کا نام ونشان تک نہیں ھے - اسی طرح ،، مسلم شریف میں بھی کتاب الفضائل ،، ھے - اسمیں بھی ،، باب فضائل فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ھے - اور اس باب فضائل میں بھی جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء (ص) کی فضیلت اور تذکرہ ھے - دیکھئے یہ احادیث کے نمبرز ۔ اور ان احادیث کو بھی چیک کیجیئے -

6220 - 6229 - 6261- 6307 - 6310 -
6314 - 6311- 6312 - 6315 - 4581-
4580 - 4581 - 4582 -

تمام روایات جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا کے فضائل و مطالبہ فدک پر شاھد ھیں - اسی طرح جامع الترمذی میں حدیث نمبر

2999 - 3205 - 3206 - 3724 - 3733 -
3184 - 3185 - 3781 - 3787 - 3867 -
3869 - 3870 - 3871 - 3872 - 3873 -
3874 - 3887 -

یہ تمام روایات جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا کے فضائل کے بارے میں ھیں - نیز سنن النسائی میں احادیث :

2664 - 2648 - 2649 - 2650 - 3221-

یہ تمام احادیث بھی جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیھا کی فضیلت پر مشتمل ھیں - اب انصاف سے بتائیں - کہ جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا کے فضائل کے بارے میں صحاح ستہ کی تمام کتب بار بار اعلان کر رھی ھیں - کہ جناب سیدہ فاطمتہ الزھراء سلام اللہ علیہا ھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر ، وھی اس کی لخت جگر ، اوربضعت الرسول (ص) ھے - دیگر دختران (زینب و ام کلثوم و رقیہ) کی فضیلت میں پوری کتب دورہ حدیث میں کتاب الفضائل میں ایک حدیث بھی مروی نہیں ھے - اور ،، قرابتداران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باب اور فضائل اھل بیت النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ابواب میں انکا نام و نشان تک بھی نہیں ھے - آخر کیوں؟؟؟؟