ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﻴﻦ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺧﻴﺮ ﺧﻠﻘﻪ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﺑﺮﻳﺘﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻋﺘﺮﺗﻪ ﺍﻟﻄﺎﻫﺮﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻌﻦ ﺍﻟﺪﺍﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻋﺪﺍﺋﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ ﺇﻟﻰ يوم الدين۔

×حاکم نیشاپوری کی روایت اور آقائے خیر طلب حفظ اللہ تعالیٰ کا تبصرہ×

~حصہ سوم~

قارئین :: اسد الطحاوی صاحِب نے دو ہی دلائل اپنے لئے استعمال کئے ہیں اور اب ان دونوں کا جواب دیا جاتا ہے، اسد الطحاوی نے کافی طوالت سے کام لیتے ہوئے حاکم نیشاپوری کی روایت سے استدلال کیا اور اس میں ان نتیجہ یہ تھا

جو ان کی زبانی پیش کیا جاتا ہے۔

(اور مستدرک کی روایت جسکی سند پختہ ہے اس میں نیزہ مار کر ہلاک کرنے والا شخص کوئی اور ہے )

جواب: قارئین ہم مستدرک کی سند اسد الطحاوی کی تحریر سے نقل کئے دیتے ہیں:

حدثنا أبو جعفر محمد بن صالح بن هانئ، ثنا السري بن خزيمة، ثنا مسلم بن إبراهيم، ثنا ربيعة بن كلثوم، حدثني أبي قال

قارئین :: ادھر دیکھا جاسکتا ہے کہ مسلم بن ابراہیم سے سری بن خزیمہ روایت کرتے ہیں اور وہ ربیعہ بن کلثوم سے اور اس میں جو محل شاہد الفاظ ہے وہ یوں ہے:

فلما كان يوم صفين أقبل يمشي أول الكتيبة راجلا حتى كان بين الصفين طعن رجل بالرمح، فصرعه، فانكفأ المغفر عنه، فضربه فإذا رأس عمار بن ياسر

جب صفین کی جنگ واقع ہوئی تو حضرت عمارؑ لشکر کے ہر اول دستہ میں پیدل چلتے ہوئے نبرد آزما ہوئے یہاں تک کہ دونوں فوج کی صفوں کے درمیان (لڑتے لڑتے) آگئے اور پھر ایک شخص نے اس پر نیزہ سے حملہ کیا اور ان کو نیچے گرادیا اور یوں ان کا سر واضح ہوا، پس اس نے مارا تو معلوم ہوا کہ یہ عمار کا سر ہے۔

تبصرہ: قارئین ادھر ضربہ میں ظاہر روایت کی بنا پر ضمیر راجع اس شخص کی طرف معلوم ہوتی ہے لیکن ہمارا ماننا یہ ہے کہ ما بعد والے راویان نے کلثوم کے الفاظ سمجھ کر روایت کو نقل کیا اور کلثوم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ایک شخص نے ان کو تیر مارا اور ایک نے سر پر مارا تو ادھر دوسرے ضربہ میں ضرب کا مشار الیہ چونکہ بالمعنی روایت نقل کی جارہی ہے تو ابو غادیہ لگتا ہے۔ اب ہم اس حاکم کی روایت پر سلسلہ وار اپنا تبصرہ پیش کرتے ہیں۔

جواب اول: اس ہی مسلم بن ابراہیم کی روایت میں ابو غادیہ کے مارنے کی تصریح ہے۔

ناظرین اب ہم ثابت کریں گے کہ مسلم بن ابراہیم کی اصح روایت میں یہ مارنے والا ابو غادیہ ہی تھا جس نے سر پر حملہ کیا۔

۞الف۞ علامہ طبرانی اس سند کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔

حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، وَأَبُو مُسْلِمٍ الْكَشِّيُّ، قَالَا: ثنا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، ثنا رَبِيعَةُ بْنُ كُلْثُومٍ، ثنا أَبِي، قَالَ

طبرانی دو راویان سے نقل کرتے ہیں علی بن عبدالعزیز اور ابو مسلم الکشی سے اور وہ دونوں کہتے ہیں کہ ہمیں مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا اور مسلم نے کہا مجھ سے ربیعہ بن کلثوم نے بیان کیا اور ربیعہ نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کہ۔۔۔

اس روایت میں ارشاد ہوا:

وَكُنَّا نَعُدُّ عَمَّارَ بْنَ يَاسِرٍ مِنْ خِيَارِنَا قَالَ: فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ صِفِّينَ أَقْبَلَ يَمْشِي أَوَّلَ الْكَتِيبَةِ رَاجِلًا حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الصَّفَّيْنِ طَعَنَ رَجُلًا فِي رُكْبَتِهِ بِالرُّمْحِ، فَعَثَرَ فَانْكَفَأَ الْمِغْفَرُ عَنْهُ فَضَرَبْتُهُ، فَإِذَا هُوَ رَأْسُ عَمَّارٍ قَالَ: يَقُولُ مَوْلَى لَنَا: «أَيُّ يَدٍ كَفَتَاهُ؟» قَالَ: " فَلَمْ أَرَ رَجُلًا أَبْيَنَ ضَلَالَةً عِنْدِي مِنْهُ أَنَّهُ سَمِعَ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا سَمِعَ، ثُمَّ قَتَلَ عَمَّارًا

ابو غادیہ کہتے ہیں: اور ہم عمار بن یاسر کو اپنے اچھوں میں سے شمار کرتے تھے اور جب صفین کی جنگ رونما ہوئی تو عمارؑ ہراول دستہ میں پیدل چلتے ہوئے جنگ میں مصروف ہوئے یہاں تک کہ جب دو صفوں کے درمیان وارد ہوئی تو ایک شخص نے ان کی ران پر نیزہ مارا جس کی وجہ سے وہ نیچے گرے اور ان کا سر منکشف ہوا، پھر میں نے ان پر ضرب لگائی اور مبادا ظاہر ہوا کہ یہ عمار ہے۔۔۔ غلام کہتا ہے کہ میں نے ابو غادیہ سے زیادہ کسی کو گمراہ نہ دیکھا کہ اس نے رسول ﷺ سے سنا کہ میرے بعد ایک دوسرے کی گردنیں مت مارو کہ مبادا کافر ہوجاو اور اس کے بعد بھی عمارؑ کو قتل کیا۔

حوالہ: [ معجم الکبیر جلد ٢٢ص ٣٦٣]

تبصرہ: قارئین ادھر معاملہ واضح ہے کہ اس مسلم بن ابراہیم سے روایت کرنے والا حاکم نیشاپوری کی روایت کے مطابق مسلم بن ابراہیم سے روایت کرنے والا ایک راوی ہے اور ادھر دو راویان ہیں اور دونوں ثقہ ہیں

۞الف۞ علی بن عبدالعزیز

ذھبی نے ان کے بارے میں فرمایا:

ابن المرزبان ابن سابور : الإمام ، الحافظ ، الصدوق أبو الحسن البغوي ، نزيل مكة

علی بن عبدالعزیز امام حافظ، صدوق تھے۔

دار القطنی نے ان کے بارے میں کہا:

ثقة مأمون .

علی بن عبدالعزیز ثقہ مامون تھے۔

ابن ابی حاتم نے کہا:

وكان صدوقا

علی بن عبدالعزیز راست گو تھے۔

حوالہ[ سیر اعلام النبلاء جلد ١٣ ص ٣٤٨ٓ و ٣٤٩]

۞ب۞ ابو مسلم الکشی

قارئین : یہ بھی زبردست ثقہ تھے اور ان کی تعریف کو نقل کیا جائے تو طوالت ہوگی تو بس ذھبی کا قول ہی نقل کیا جاتا ہے:

الشيخ ، الإمام ، الحافظ ، المعمر ، شيخ العصر أبو مسلم ، إبراهيم بن عبد الله بن مسلم بن ماعز بن مهاجر ، البصري الكجي ، صاحب " السنن " .

یہ شیخ، امام، حافظ اپنے زمانہ کے استادذہ میں سے تھے اور انہوں نے السنن نامی کتاب بھی تالیف کی۔۔

حوالہ: [سیر اعلام النبلاء جلد ١٣ ص ٤٢٣]

تبصرہ: قارئین میں سمجھتا ہوں کہ جمہور جمہور کی رٹ لگانے والوں کو بڑی دقت سے فیصلہ کرنا چاہیئے
کہ مسلم بن ابراہیم سے جو دو اوثق ترین حفاظ نقل کررہے ہیں اس میں واضح طور پر ابو غادیہ کی طرف نسبتِ قتل دی جارہی ہے لیکن حاکم کی روایت میں جہاں ابہام ہے تو اس کی تشریح میں ایسی روایت کیوں نقل نہ کی جائے جو دیگر سے بھی تائید شدہ ہو؟

جواب دوم: حاکم کی روایت میں تحریف ہوئی ہے

ناظرین حاکم کی روایت میں یہ الفاظ وارد ہوئے:

وَاللَّهِ إِنِّي لَفِي مَسْجِدِ قُبَاءَ إِذَا هُوَ يَقُولُ - وَذَكَرَ كَلِمَةً

اللہ کی قسم جب میں مسجد قبا میں تھا تو عمار رض کو کہتے سنا۔۔ اور پھر ان کلمات کا ذکر کیا۔

قارئین : جب کہ دیگر روایت میں واضح طور پر موجود ہے کہ حضرت عمارؑ نے عثمان کو نعثل (یہودی بڈھا) کہا تھا اور ابھی ہم مزید روایات جب نقل کریں گے آگے تو اس میں اور واضح ہوجائے گا تو اس محرف روایت کو لے کر اس سے زیادہ مضبوط اور اس سے زیادہ طرق سے جو روایات آئیں ہیں ان کو کس طرح نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟

دراصل حاکم کی اس روایت میں بہت کوشش کی جارہی کہ عدالتِ صحابہ کے جنازہ کو دفنانے سے بچایا جائے لیکن ایسے کرنے میں ناکامی ہی ناکامی ہے۔۔

جواب سوم: اس ہی حاکم کی روایت میں عدالتِ صحابہ کا جنازہ نکلا ہے

قارئین : اس ہی حاکم کی روایت میں الفاظ ہیں:

- لَوْ وَجَدْتُ عَلَيْهِ أَعْوَانًا لَوَطِئْتُهُ حَتَّى أَقْتُلَهُ

ابو غادیہ صحابی کہتا ہے: اگر مجھے عمارؑ کے خلاف مددگار ملتے تو اس پر حملہ کرکے اس کو قتل کردیتا۔

کمنٹ: قارئین اگر ابو غادیہ صحابی ہے اور ہر صحابی کا عمل قابل نمونہ ہے تو ہونا یہ چاہیئے کہ اہلسنت کو کچھ اعتراض نہیں کرنا چاہیئے!
جب شیعہ حضرات بعض صحابہ کو برا کہتے ہیں ، یاد رکھیں کہ شیعہ کتنا برا کہہ دیں لیکن قتل کرنے کی خواہش کرنا بہرحال سب سے قبیح تر ہے۔ اگر مجرد صحابہ پر اعتراض کرنے والا ابو زرعہ کے نزدیک زندیق ہے تو جو قتل کا ارادہ کرے اور کرنا چاہے تو زندیقوں کا امام کہلانا چاہیئے!

× دیگر روایات اور اسناد میں ابو غادیہ کے قتل کی تصریح×

قارئین : اب ہم دیگر طرق کی روایات نقل کریں گے جس میں ابو غادیہ کے قتل کی تصریح ہوگی چونکہ اسد الطحاوی صاحِب کے بقول قتل والے الفاظ دو راویان سے منقول ہیں اور دونوں میں کچھ مسائل ہیں

(اس پر تبصرہ آنے والا ہے) آئیے ان کی زبانی ان کا دعویٰ دیکھتے ہیں:

(اسکے بعد یہی عفان بن مسلم جو اختلاط زدہ راوی ہے اور اسکا شیخ حماد بن سلمہ جو صاحب اوھام اور غریب اور منکر روایات بیان کرنے والے لیکن ثقہ راوی ہیں)

کمنٹ: اب ہم اس بات کا پورا پوسٹ مارٹم کرتے ہیں اور قسط وار جواب دیتے ہیں۔

جاری ہے۔۔۔۔۔۔

تحریر :: آقائے خیر طلب زیدی حفظ اللہ تعالیٰ

ترتیب:: خاکسار عبداللہ صدیقی