✍️📜📚📚📚📚📚📖
*مولا علی اور حضرت زھرا کے درمیان اختلافات: اہل سنت کے اشکال کا جواب*
مقدمه
مولا علی اور حضرت زھرا کی باہمی اور انفرادی زندگی وہ زندگی ہے کہ جس کی تاریخ اسلام میں نظیر نہیں ملتی، تا قیامت یہ زندگی تمام اہل اسلام سمیت ہر انسان کے لئے اسوہ اور مشعل راہ ہے،
لیکن افسوس کے ساتھ عناد رکھنے والے مخالفین شیعہ کی کتابوں سے کچھ روایات سے استناد کرکے لوگوں کو فریب اور تاریخی حقائق کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں،
اس تحریر میں ہم وہ تمام روایت کہ جن سے مخالفین استناد کرتے ہیں کی صحت کے بارے میں قارئین کے سامنے کچھ معلومات پیش کرنا چاھتے ہیں،
اہل سنت کی طرف سے شبهه
کتب شیعه میں موجود روایات کی بنیاد پر، امیرالمومنین اور حضرت زهراء سلام الله علیهما بعض اوقات ایسے حالات سے روبرو ہوتے تھے کہ جو حضرت زھرا کی ناراضگی کا سبب بنتے
جواب:
جو روایات اہل سنت پیش کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں ،
روایت اول
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ زِیَادِ بْنِ جَعْفَرٍ الْهَمَدَانِیُّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَیْهِ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَهْلِ بْنِ إِسْمَاعِیلَ الدِّینَوَرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا زَیْدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ الصَّائِغُ قَالَ حَدَّثَنَا مُعَاوِیَةُ بْنُ هِشَامٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ عَبْدِ الْمَلِکِ بْنِ عُمَیْرٍ عَنْ خَالِدِ بْنِ رِبْعِیٍّ قَالَ: إِنَّ أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ ع دَخَلَ مَکَّةَ فِی بَعْضِ حَوَائِجِهِ فَوَجَدَ أَعْرَابِیّاً مُتَعَلِّقاً بِأَسْتَارِ الْکَعْبَة ... فَلَمَّا أَتَى الْمَنْزِلَ قَالَتْ لَهُ فَاطِمَةُ ع یَا ابْنَ عَمِّ بِعْتَ الْحَائِطَ الَّذِی غَرَسَهُ لَکَ وَالِدِی قَالَ نَعَمْ بِخَیْرٍ مِنْهُ عَاجِلًا وَ آجِلًا قَالَتْ فَأَیْنَ الثَّمَنُ قَالَ دَفَعْتُهُ إِلَى أَعْیُنٍ اسْتَحْیَیْتُ أَنْ أُذِلَّهَا بِذُلِّ الْمَسْأَلَةِ قَبْلَ أَنْ تَسْأَلَنِی قَالَتْ فَاطِمَةُ أَنَا جَائِعَةٌ وَ ابْنَایَ جَائِعَانِ وَ لَا أَشُکُّ إِلَّا وَ أَنَّکَ مِثْلُنَا فِی الْجُوعِ لَمْ یَکُنْ لَنَا مِنْهُ دِرْهَمٌ وَ أَخَذَتْ بِطَرَفِ ثَوْبِ عَلِیٍّ ع فَقَالَ عَلِیٌّ یَا فَاطِمَةُ خَلِّینِی فَقَالَتْ لَا وَ اللَّهِ أَوْ یَحْکُمَ بَیْنِی وَ بَیْنَکَ أَبِی فَهَبَطَ جَبْرَئِیلُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ السَّلَامُ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ اقْرَأْ عَلِیّاً مِنِّی السَّلَامَ وَ قُلْ لِفَاطِمَةَ لَیْسَ لَکِ أَنْ تَضْرِبِی عَلَى یَدَیْهِ وَ لَا تَلْزِمِی بِثَوْبِهِ فَلَمَّا أَتَى رَسُولُ اللَّهِ ص مَنْزِلَ عَلِیٍّ ع وَجَدَ فَاطِمَةَ مُلَازِمَةً لِعَلِیٍّ فَقَالَ لَهَا یَا بُنَیَّةِ مَا لَکِ مُلَازِمَة لِعَلِیٍّ قَالَتْ یَا أَبَتِ بَاعَ الْحَائِطَ الَّذِی غَرَسْتَهُ لَهُ بِاثْنَیْ عَشَرَ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَ لَمْ یَحْبِسْ لَنَا مِنْهُ دِرْهَماً نَشْتَرِی بِهِ طَعَاماً فَقَالَ یَا بُنَیَّةِ إِنَّ جَبْرَئِیلَ یُقْرِئُنِی مِنْ رَبِّیَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ اقْرَأْ عَلِیّاً مِنْ رَبِّهِ السَّلَامَ وَ أَمَرَنِی أَنْ أَقُولَ لَکِ لَیْسَ لَکِ أَنْ تَضْرِبِی عَلَى یَدَیْهِ وَ لَا تَلْزِمِی بِثَوْبِهِ قَالَتْ فَاطِمَةُ فَإِنِّی أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ وَ لَا أَعُودُ أَبَدا ...
خالد بن ربیع کہتے ہیں کہ امیر المؤمنین (ع) کسی کام کی خاطر مکہ گئے تھے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب گھر آئے تو حضرت زھرا سلام اللہ علیہا نے کہا کہ اے چچا زاد جو باغ میرے باپ آپ کے لئے آباد کیا تھا وہ آپ نے فروخت کیا؟ امیر المومنین نے فرمایا کہ ہاں ، بی بی نے فرمایا کہ اس کی قیمت [ درھم و دینا] کہاں ہیں؟ امیرالمومنین نے فرمایا کہ ایسے لوگوں کو دی کہ جن کے بارے میں میں نہیں چاھتا تھا کہ مجھ سے سوال ہوجائے، بی بی نے فرمایا کہ میں ، میرے دو بیٹے اور آپ بھوک کے شکار ہیں، کیا ایک درھم بھی ہم تک نہیں پہنچا؟ مولا علی کے دامن کو پکڑ لیا ، مولا علی نے کہا کہ اے فاطمہ مجھے چھوڑ دو، بی بی نے فرمایا کہ نہیں جب تک میرے باپ ہمارا فیصلہ نہ سنائیں۔
حضرت جبرائیل ع رسول اللہ کے پاس آئے اور کہا کہ اے محمد ، اللہ تجھے سلام کہہ رہا ہے، اور کہتا ہے کہ علی کو میرا سلام پہنچادے، اور فاطمہ س کو کہو کہ تم علی کا دامن پکڑنے کا حق نہیں رکھتی، رسول اللہ مولا علی کے گھر آئے دیکھا بی بی فاطمہ س نے مولا علی کا دامن پکڑ رکھا ہے، کہا اے میری بیٹی کیوں علی کا دامن پکڑ بیٹھی ہو؟ بی بی نے کہا کہ بابا وہ باغ جو آپ نے ان کے لئے آباد کیا تھا بارہ ہزار درہم پر انہوں نے فروخت کیا اور ایک درھم بھی ہمارے لئے نہیں رکھا کہ ہم خوراک خریدیں، رسول اللہ نے کہا اے میری بیٹی ، جبرائیل نے میرے رب کی طرف سے مجھے اور علی کو پہنچایا ہے،اور مجھے حکم دیا ہے کہ تجھے کہہ دوں کہ تم علی کا دامن پکڑنے کا حق نہیں رکھتی، بی بی نے فرمایا کہ اللہ سے مغفرت چاھتی ہوں پھر ایسا نہیں کروں گی۔
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى381هـ)، الأمالی، صص467-471، ح10، الناشر: کتابچی - تهران، الطبعة: السادس، 1376 ش.
جواب۔
اولا:
اس روایت کی سند میں ایک سنی سند ہے نہ کہ شیعہ سند ، یعنی احمد بن زیاد بن جعفر ھمدانی نے یہ روایت اہل سنت سے نقل کیا ہے، اس روایت کے تمام راوی اہل سنت ہیں،
ثانیا:
اس روایت کی سند میں موجود احمد بن زیاد کے علاوہ تمام راویوں کے بارے میں شیعہ کی کتابوں میں کوئی توثیق نہیں ہے اور وہ راوی روایت کو نقل کرنے میں اعتماد کے قابل نہیں ہیں،
ثالثا:
اس روایت میں موجود بعض راوی اہل بیت کے دشمن کے طور پر جانے جاتے ہیں مثلا سفیان ثوری ، سفیان ثوری ان لوگوں میں ہیں کہ جن کی شیعہ علما نے مذمت کی ہے، اور ان کو مذموم ٹھرایا ہے، البتہ یہ سنیوں کے ہاں قابل اعتماد ہیں،
علامہ حر عاملی رحمۃ اللہ علیہ سفیان ثوری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
سفیان الثَوْری: مذموم جدّاً.
سفیان ثوری نہایت ہی مذموم انسان تھا،
الحر العاملی، محمد بن الحسن (المتوفى 1104هـ)، الرجال للحر العاملی، ص132، الناشر: موسسه علمى فرهنگى دار الحدیث، 1427 هـ .
اسی طرح عبدالملک بن عمیر امیرالمومنین علیه السلام کے سخت ترین دشمنوں میں سے تھا ، شیخ مفید اس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
فأما عبد الملک بن عمیر فمن أبناء الشام و أجلاف محاربی أمیر المؤمنین ع المشتهرین بالنصب و العداوة له و لعترته و لم یزل یتقرب إلى بنی أمیة بتولید الأخبار الکاذبة فی أبی بکر و عمر و الطعن فی أمیر المؤمنین ع حتى قلدوه القضاء و کان یقبل فیه الرشا و یحکم بالجور و العدوان و کان متجاهرا بالفجور و العبث بالنساء.
عبدالملک بن عمیر شام کا رہنے والا اور امیرالمومنین کا سخت ترین دشمن تھا، وہ امیرالمومنین اور ان کی خاندان سے دشمنی میں مشہور تھا، اور ابوبکر اور عمر کے بارے میں خود سے جھوٹے فضائل اور امیر المومنین پر طعن کی روایات گھڑتا تھا۔
الشیخ المفید، محمد بن محمد بن النعمان ابن المعلم أبی عبد الله العکبری، البغدادی (المتوفى413 هـ)، الإفصاح فی إمامة أمیر المؤمنین علیه السلام، ص
220الناشر: کنگره ی شیخ مفید، الطبعة: الأولى، 1413 هـ
پس یہ روایت انتہائی ضعیف روایت ہے۔ ،
روایت دوم
أَبِی رَحِمَهُ اللَّهُ قَالَ حَدَّثَنَا سَعْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَرَفَةَ بِسُرَّ مَنْ رَأَى قَالَ حَدَّثَنَا وَکِیعٌ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْرَائِیلَ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ عَنْ أَبِی ذَرٍّ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَیْهِ قَالَ کُنْتُ أَنَا وَ جَعْفَرُ بْنُ أَبِی طَالِبٍ مُهَاجِرَیْنِ إِلَى بِلَادِ الْحَبَشَةِ فَأُهْدِیَتْ لِجَعْفَرٍ جَارِیَةٌ قِیمَتُهَا أَرْبَعَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِینَةَ أَهْدَاهَا لِعَلِیٍّ ع تَخْدُمُهُ فَجَعَلَهَا عَلِیٌّ ع فِی مَنْزِلِ فَاطِمَةَ فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ ع یَوْماً فَنَظَرَتْ إِلَى رَأْسِ عَلِیٍّ ع فِی حَجْرِ الْجَارِیَةِ فَقَالَتْ یَا أَبَا الْحَسَنِ فَعَلْتَهَا فَقَالَ لَا وَ اللَّهِ یَا بِنْتَ مُحَمَّدٍ مَا فَعَلْتُ شَیْئاً فَمَا الَّذِی تُرِیدِینَ قَالَتْ تَأْذَنُ لِی فِی الْمَصِیرِ إِلَى مَنْزِلِ أَبِی رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَالَ لَهَا قَدْ أَذِنْتُ لَکِ فَتَجَلْبَبَتْ بِجِلْبَابِهَا وَ تَبَرْقَعَتْ بِبُرْقِعِهَا وَ أَرَادَتِ النَّبِیَّ ص فَهَبَطَ جَبْرَئِیلُ ع فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ إِنَّ هَذِهِ فَاطِمَةُ قَدْ أَقْبَلَتْ إِلَیْکَ تَشْکُو عَلِیّاً فَلَا تَقْبَلْ مِنْهَا فِی عَلِیٍّ شَیْئاً فَدَخَلَتْ فَاطِمَةُ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ ص جِئْتِ تَشْکِینَ عَلِیّاً قَالَتْ إِیْ وَ رَبِّ الْکَعْبَةِ فَقَالَ لَهَا ارْجِعِی إِلَیْهِ فَقُولِی لَهُ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ فَرَجَعَتْ إِلَى عَلِیٍّ ع فَقَالَتْ لَهُ یَا أَبَا الْحَسَنِ رَغِمَ أَنْفِی لِرِضَاکَ تَقُولُهَا ثَلَاثاً فَقَالَ لَهَا عَلِیٌّ ع شَکَوْتِینِی إِلَى خَلِیلِی وَ حَبِیبِی رَسُولِ اللَّهِ ص وَا سَوْأَتَاهْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ ص أُشْهِدُ اللَّهَ یَا فَاطِمَةُ أَنَّ الْجَارِیَةَ حُرَّةٌ لِوَجْهِ اللَّهِ وَ أَنَّ الْأَرْبَعَمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِی فَضَلَتْ مِنْ عَطَائِی صَدَقَةٌ عَلَى فُقَرَاءِ أَهْلِ الْمَدِینَةِ ثُمَّ تَلَبَّسَ وَ انْتَعَلَ وَ أَرَادَ النَّبِیَّ ص فَهَبَطَ جَبْرَئِیل فَقَالَ یَا مُحَمَّدُ إِنَّ اللَّهَ یُقْرِئُکَ السَّلَامَ وَ یَقُولُ لَکَ قُلْ لِعَلِیٍّ قَدْ أَعْطَیْتُکَ الْجَنَّةَ بِعِتْقِکَ الْجَارِیَةَ فِی رِضَا فَاطِمَةَ وَ النَّارَ بِالْأَرْبَعِمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِی تَصَدَّقْتَ بِهَا فَأَدْخِلِ الْجَنَّةَ مَنْ شِئْتَ بِرَحْمَتِی وَ أَخْرِجْ مِنَ النَّارِ مَنْ شِئْتَ بِعَفْوِی فَعِنْدَهَا قَالَ عَلِیٌّ ع أَنَا قَسِیمُ اللَّهِ بَیْنَ الْجَنَّةِ وَ النَّار.
ابو ذر رحمة اللَّه علیه فرماتے ہیں کہ میں اور جعفر بن ابى طالب حبشہ کی طرف ھجرت کرگئے، ایک لونڈی کہ جس کی قیمت چار ہزار درھم تھی کو جعفر بن ابیطالب کے لئے ھدیہ کی گئی، جب ہم مدینہ آئےتو جعفر نے وہ کنیز مولا علی ع کو ھدیہ میں دے دی، مولا علی ع نے حضرت زھرا کے گھر میں اس کنیز کو رکھا، ایک دفعہ بی بی فاطمہ گھر میں داخل ہوئیں دیکھا کہ مولا علی ع کا سر اس کنیز کے گود میں ہے، بی بی نے کہا یا ابا الحسن:کیا آپ نے اس کنیز کے ساتھ رابطہ رکھا ہے ؟ على علیه السّلام نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ، اے رسول کی بیٹی میں نے اس کنیز کے ساتھ کوئی عمل انجام نہیں دیا ہے، تم کیا کہتی ہو؟ بی بی نے کہا کہ کیا آپ کی اجازت ہے کہ میں اپنے بابا کے گھر جاوں ؟ على علیه السّلام نے فرمایا کہ جی بالکل اجازت ہے، بی بی فاطمه سلام اللَّه علیها نے برقعہ پہنا اور نقاب کرکے نبىّ اکرم صلّى اللَّه علیه و آله کے گھر گئیں۔ بی بی کے وارد ہونے سے پہلے جبرائیل نازل ہوا اور کہا اے محمد اللہ کہتا ہے کہ فاطمہ تمھارے پاس آئیں گی اور علی کی شکایت کرے گی، ان سے علی کے بارے میں کسی بات کو قبول نہ کرو، اسی اثنا میں بی بی داخل ہوئیں ، رسول اللہ نے فرمایا: تم آئی ہو تاکہ علی کی شکایت کرو؟ فاطمه سلام اللَّه علیها نے عرض کیا، جی ہاں ، پیغمبر صلّى اللَّه علیه و آله نے فرمایا: على علیه السّلام کے پاس وپس جاو اور کہہ دو، کہ تم اس کی رضا کی مطیع ، خشنود اور ان کے لئے متواضع و خاکسار ہو، فاطمه سلام اللَّه علیها واپس مولا علی کے ہاں اور تین دفعہ کہا [ جس کا رسول نے کہا تھا] على علیه السّلام نے فرما یا کہ تم میری شکایت میرے محبوب رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله کے ہاں لے گئیں۔ میں رسوائی سے رسول اللہ کی پناہ مانگتا ہوں ، اے فاطمه، خدا کو گواہ قرار دیتا ہوں کہ میں نے کنیز کو راہ خدا میں آزاد کی، اور میری غنیمت سے چہار سو درھم زائد کو فقرا میں صدقہ دیا،
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، ص163و164، ح2، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى - قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ - 1966 م.
جواب
اولا: اس روایت کی سند «الحسن بن عرفة» کے بعد کاملا سُنّی سند ہے نہ کہ شیعی.
ثانیا: «حسن بن عرفة»، «وکیع»، «محمد بن اسرائیل» اور «ابوصالح» شیعہ رجال میں مجھول راوی ہیں
ثالثا: «وکیع» اہل سنت کے محدثین میں سے ہیں کہ جو خود اہل سنت کے اعتراف کے مطابق وہ ایک شراب خور انسان تھا
«وَقَدْ سُئِلَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: إِذَا اخْتَلَفَ وَکِیعٌ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِیٍّ بِقَوْلِ مَنْ تَأْخُذُ؟ فَقَالَ: عَبْدُ الرَّحْمَنِ یُوَافِقُ أَکْثَرَ وَخَاصَّةً سُفْیَانَ، کَانَ مَعْنِیًّا بِحَدِیثِ سُفْیَانَ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ یُسَلِّمُ عَلَیْهِ السَّلَفُ وَیَجْتَنِبُ شُرْبَ الْمُسْکِرِ» وَکَانَ لَا یَرَى أَنْ یُزْرَعَ فِی أَرْضِ الْفُرَاتِ
احمد بن حنبل سے پوچھا گیا کہ وکیع اور عبد الرحمن اگر ایک مسئلے میں اختلاف کریں تو تم کس کی بات کو لو گے؟ احمد بن حنبل نے کہا کہ عبدالرحمن کی بات کو، کیونکہ وہ شراب پینے سے اجتناب کرتا ہے۔
الفسوی، أبو یوسف یعقوب بن سفیان (المتوفى 277هـ) ، المعرفة والتاریخ، ج1، ص728، تحقیق: أکرم ضیاء العمری، الناشر: مؤسسة الرسالة، بیروت، الطبعة: الثانیة، 1401 هـ- 1981 م
اس کا مطلب یہ ہے کہ احمد بن حنبل یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ وکیع ایک شراب خور انسان ہے اور شراب پینے سے اجتناب نہیں کرتا،
پس یہ روایت بھی ایک ضعیف ترین روایت ہے کہ جو قابل استناد نہیں ہے،
روایت سوم
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَسَنِ الْقَطَّانُ قَالَ حَدَّثَنَا أَبُو سَعِیدٍ الْحَسَنُ بْنُ عَلِیٍّ السُّکَّرِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا الْحُسَیْنُ بْنُ حَسَّانَ الْعَبْدِیُّ قَالَ حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِیزِ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ یَحْیَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِیهِ عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ قَالَ صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ ص الْفَجْرَ ثُمَّ قَامَ بِوَجْهٍ کَئِیبٍ وَ قُمْنَا مَعَهُ حَتَّى صَارَ إِلَى مَنْزِلِ فَاطِمَةَ ص فَأَبْصَرَ عَلِیّاً نَائِماً بَیْنَ یَدَیِ الْبَابِ عَلَى الدَّقْعَاءِ فَجَلَسَ النَّبِیُّ ص فَجَعَلَ یَمْسَحُ التُّرَابَ عَنْ ظَهْرِهِ وَ یَقُولُ قُمْ فِدَاکَ أَبِی وَ أُمِّی یَا أَبَا تُرَابٍ ثُمَّ أَخَذَ بِیَدِهِ وَ دَخَلَا مَنْزِلَ فَاطِمَةَ فَمَکَثْنَا هُنَیَّةً ثُمَّ سَمِعْنَا ضَحِکاً عَالِیاً ثُمَّ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللَّهِ ص بِوَجْهٍ مُشْرِقٍ فَقُلْنَا یَا رَسُولَ اللَّهِ دَخَلْتَ بِوَجْهٍ کَئِیبٍ وَ خَرَجْتَ بِخِلَافِهِ فَقَالَ کَیْفَ لَا أَفْرَح وَ قَدْ أَصْلَحْتُ بَیْنَ اثْنَیْنِ أَحَبِّ أَهْلِ الْأَرْضِ إِلَیَّ وَ إِلَى أَهْلِ السَّمَاء.
ابو هریره کہتے ہیں کہ رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله نے صبح کی نماز پڑھی پھر محزون چہرہ کھڑے ہوئے ہم بھی محزون ہوکر ان کے ساتھ کھڑے ہوئے کر ان کے معیت میں حضرت فاطمه صلوات اللَّه علیها کے گھر پہنچے ،میں نے دیکھا کہ على علیه السّلام گھر کے دروازے کے ساتھ زمین پر سوئے ہوئے ہیں پیغمبر اکرم صلّى اللَّه علیه و آله بیٹھے اور ان امیر المؤمنین علیه السّلام کی پیٹھ کو خاک سے صاف کرنا شروع کیا، اور کہا کہ اے ابوتراب اٹھو میرے ماں باپ تجھ پر قربان ، پھرعلى علیه السّلام کے ہاتھ کو پکڑ کر فاطمه علیها السّلام کے گھر داخل ہوئے،.
ہم کچھ وقت گھر سے باہر انتظار کیا ہم نے بلند آواز کے ساتھ گھر سے ہنسی کی آواز سنی ، کچھ دیر بعد رسول خدا صلّى اللَّه علیه و آله خوشی کے ساتھ باہر آئے ، ہم نے کہا یا رسول اللَّه گھر میں محزون داخل ہوئے تھے اور خوشی کے ساتھ باہر نکلے، وجہ کیا ہے؟
حضرت ص نے فرمایا کہ کیسے مسرور اور خوش نہ ہوجاوں حالانکہ میں نے دو ایسے ہستیوں کے درمیان صلح کی جو مجھے تمام اہل زمین اور اہل آسمان سے زیادہ محبوب ہیں ،
الصدوق، ابوجعفر محمد بن علی بن الحسین (المتوفى 381هـ)، علل الشرائع، ج1، ص156و157، ح1، الناشر: منشورات کتاب فروشى داورى - قم، الطبعة: الأولى، 1385 هـ - 1966 م.
جواب
اولا: اس روایت کی سند میں «حسن بن علی سکری»، «حسین بن حسان عبدی»، «عبد العزیز بن مسلم»، «یحیی بن عبدالله» اور اس کے باپ مجاھیل ہیں،.