معاویہ کے جعلی اور من گھڑت فضائل کی حقیقت قرآن اور حدیث کی روشنی میں

قرآن کریم میں اللہ تعالی فرماتا ہے

وَالسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْاَنْصَارِ وَالَّـذِيْنَ اتَّبَعُوْهُـمْ بِاِحْسَانٍۙ رَّضِىَ اللّـٰهُ عَنْـهُـمْ وَرَضُوْا عَنْهُ وَاَعَدَّ لَـهُـمْ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ تَحْتَـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَآ اَبَدًا ۚ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْـمُ (100) ↖
اور مہاجرین اور انصار میں سے (ایمان لانے) میں سبقت کرنے والے اور وہ جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی اتباع کی اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اس سے راضی ہوئے اور ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ان میں ہمیشہ رہیں گے، یہ بڑی کامیابی ہے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے
لَا يَسْتَوِىْ مِنْكُمْ مَّنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ ۚ اُولٰٓئِكَ اَعْظَمُ دَرَجَةً مِّنَ الَّـذِيْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا ۚ
تم میں سے اور کوئی اس کے برابر ہو نہیں سکتا جس نے فتح (صلح حدیبیہ) سے پہلے خرچ کیا اور جہاد کیا، یہ (لوگ) ہیں کہ اللہ کے نزدیک جن کا بڑا درجہ ان لوگوں پر ہے جنہوں نے بعد میں خرچ کیا اور جہاد کیا
صلح حدیبیہ جسے اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فتح مبین قرار دے رکھا ہے کے کچھ عرصے بعد اسلام میں داخل ہونے والے حضرت خالد بن ولید نے جب حضرت عبدالرحمن بن عوف کو گالیاں دیں تو رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت خالد بن ولید کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا
مت برا کہو میرے صحابہ کو اگر تم میں سے کوئی احد کے پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر لے تو میرے صحابہ کے ایک یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ معاویہ نامی طلیق ابن طلیق اور مولفة القلوب جو احد کے پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر کے بھی ایمان لانے میں سبقت کرنے والے صحابہ کرام کے ایک یا آدھے مد کے برابر بھی نہیں ہو سکتا بلکہ اللہ تعالی نے صلح حدیبیہ کے بعد اسلام میں داخل ہونے والوں جن میں فتح مکہ کے موقع پر مجبوری سے اسلام میں داخل ہونے والا معاویہ بھی شامل ہے کو سبقت کرنے والوں کی نیکی کے ساتھ اتباع/پیروی کا پابند بنایا ہے وہ کیسے اور کون سے خصوصی قانون شریعت کے مطابق سبقت کرنے والوں سے زیادہ صاحب فضیلت اور ان پر حکمران ہو سکتا ہے ؟
یہی وجہ ہے کہ نواصب کے چہیتے ابن تیمیہ کو بھی یہ کہنا پڑا