شیخین کا جنگ خیبر سے فرار و ناکام ہونا بأسناد صحیح

اگر ہم اصحاب ثلاثہ کی شجاعت کے حوالہ سے ان حضرات کے جہاد فی سبیل اللہ کا مطالعہ کریں توکتب حدیث و تاریخ ان حضرات کی میدان فرارمیں بہادری اور چابکدستی پر جا بجا گواہی دیتی نظر آتی ہیں احد کی جنگ ہو یا خیبر و حنین کا معرکہ تمام ہی مقامات میں ان حضرات نے اپنی جان بچانے میں ذرا بھی بزدلی سے کام نہی لیا البتہ خندق میں چونکہ فرار کا راستہ نہی تھا تو وہاں کوئی میدان میں جانے کو تیار بھی نہ تھا اسی منظرکشی و تاریخ نے " كأنهم علی رؤوسهم الطیور " کے الفاظ میں قلم بند کیا ھے۔

غزوہ خیبر اسلامی غزوات میں سے ایک عظیم غزوہ ہے ۔خیبر میں یہودیوں کے مضبوط قلعے تھے جن میں تقریبا بیس ہزارسپاھی تھے،ان میں سے سب سے زیادہ مضبوط قلعہ قموص تھا جس کا محاصرہ مسلمانوں نے کر رکھا تھا ہر روز آنحضرت ص کسی صحابی کو علم لشکر دے کر روانہ کرتے مگر لشکر فتح کے بغیر ہی واپس لوٹ آتا تھا محدثین و مؤرخین نے صحیح اسناد کیساتھ نقل کیا ہے کہ اسی اثنا میں آنحضرت ص نے حضرات شیخین یعنی حضرت ابو بکر و عمر کو بھی اسلامی لشکر کی قیادت سونپی مگر مڈ بھیڑ کے بعد یہ حضرات شیخین یوں ہی ناکام پلٹ آئے کہ فرار کے سوا راستہ نہ تھا چنانچہ ہم یہاں چند صحیح روایات نقل کررہے ہیں جنمیں ان حضرات کی زنانہ بہادری کا ذکرملتا ھے۔

روایت :1: [ خصائص علی : مسند احمد بن حنبل ] روایت کا ترجمہ :
امام نسائی نے " الخصائص " میں اور امام احمد بن حنبل نے مسند میں عبد اللہ بن بریدہ اسلمی کے طریق سے روایت نقل کری ھے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو کہتے ہوئے سنا فرمارہے تھے کہ ہم نے خیبر کا محاصرہ کیا ہوا تھا تو حضرت ابوبکر نے جنگ کے لیئے علم تھاما لیکن ان کو فتح نہی ہوئی اگلے دن علم حضرت عمر نے لیا لیکن عمر بھی لوٹ آئے اور فتح نہ ہوسکی اور اس دن لوگوں کو سخت شدت مشکل کا سامنا کرنا پڑا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کل میں علم ایسے شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ھے اور اللہ اور اسکا رسول اس کو محبوب رکھتے ہیں وہ فتح حاصل کرے بغیر نہی لوٹے گا راوی کہتا ھے کہ ہم نے اطمینان سے رات بسر کری کہ کل ضرور فتح ملے گی پس جب رسول خدا نے صبح کری اور نماز فجر پڑھائی پھر آکر قیام کیا اور علم اٹھایا اس حال میں کہ لوگ اپنی صفوں میں تھے پس ہم میں سے جسکی بھی رسول اللہ ص کے نزدیک تھوڑی سی منزلت تھی وہ یہی امید کررہا تھا کہ پرچم وہ تھامے گا لیکن آپ نے علی بن ابی طالب کو بلایا اس حال میں کہ حضرت علی آشوب چشم میں مبتلا تھے پھر آپ نے انہیں لعاب مبارک لگایا اور انکی آنکھوں پر ہاتھ مبارک پھیرا پھر علم تھمایا اور اللہ نے ان کے ہاتھوں سے فتح عطاء فرمائی راوی کہتا ھے کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جو علم ملنے کے امیدوار تھے۔

اسنادی حیثیت : اس روایت کی سند کو مسند احمد بن حنبل کے محققین شیخ شعیب الارنؤوط اور شیخ احمد شاکر نے صحیح کہا ھے اسیطرح " خصائص " کے محقق الدانی بن منیر نے بھی اس روایت کی سند کو صحیح کہا ھے۔

روایت 2 : [مستدرک حاکم] روایت کا ترجمہ :
امام حاکم نے عبد الرحمان بن أبی لیلی کے طریق سے روایت نقل کری ھے ابی لیلی کہتے ہیں کہ حضرت علی نے کہا کہ ابو لیلی کیا تم ہمارے ساتھ خیبر میں نہی تھے؟؟ ابو لیلی نے کہا قسم بخدا میں آپ حضرات کیساتھ ہی تھا ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ رسول خدا نے ابو بکر کو خیبر کیطرف بھیجا پس حضرت ابوبکر لوگوں کیساتھ گئے لیکن ہزیمت سے دوچار ہوگئے یہاں تک کہ واپس لوٹ آئے۔

روایت 3 : [مستدرک حاکم] روایت کا ترجمہ :
ابو موسی روایت کرتے ہیں کہ حضرت علی نے بیان کیا کہ رسول اللہ خیبر کیطرف چلے پس جب پہنچ گئے تو حضرت عمر کو ایک لشکر کیساتھ یہود کے قلعوں کیطرف بھیجا پس انہوں نے قتال کیا اور قریب تھا کہ حضرت عمر اور انکے ساتھی شکست کھاجاتے چنانچہ واپس لوٹ آئے اس حال میں کہ لشکر والے حضرت عمر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے اور حضرت عمر لشکر کو بزدلی کا طعنہ دے رہے تھے ۔

اسنادی حیثیت :
ان دونوں روایات کو امام حاکم نے صحیح کہا ھے اورانکی تصحیح پر علامہ ذھبی نے بھی تلخیص میں انکی موافقت کری ھے ۔

قرآن کا فرمان

15 - يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُواْ زَحْفاً فَلاَ تُوَلُّوهُمُ الأَدْبَارَ
16 - وَمَن يُوَلِّهِمْ يَوْمَئِذٍ دُبُرَهُ إِلاَّ مُتَحَرِّفاً لِّقِتَالٍ أَوْ مُتَحَيِّزاً إِلَى فِئَةٍ فَقَدْ بَاء بِغَضَبٍ مِّنَ اللّهِ وَمَأْوَاهُ جَهَنَّمُ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

(سورہ انفال آیت نمبر 15،16)

مسلمانوں ! جب کافروں سے مڈبھیڑ ہوجائے تو انکو پیٹھ نہ دینا ور جوشخص ایسے موقع پر کافروں کو اپنی پیٹھ دے گا (تو سمجھنا کہ) وہ خدا کے غضب میں آگیا، اور وہ بہت بڑی جگہ ہے مگر ہاں لڑائی کے لیے کنی کاٹتا ہوا یا اپنے لوگوں میں جاشامل ہونے کے لیے کافروں کے سامنے سے ٹل جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔۔

کلام آخر : اس آیت آیت مبارکہ میں تویہ حکم صریح موجود ہے کہ جب کفار سے مڈبھیڑ ہو تو ان کو ہرگز پیٹھ نہ دکھانا،لہذا صادق الایمان وہی ہوگا جو میدان جنگ میں جانے تو فتح یاب ہوکر واپس آئے یا پھر شیہد ہوجائے مگر شیخین عجیب مومن ہیں کہ میدان میں جاتے ہیں اور بلافتح مع السلامت کفار کو پیٹھ دکھا کر واپس آجاتے ہیں؟

🙏😎