بسم ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ
ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﻴﻦ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺧﻴﺮ ﺧﻠﻘﻪ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﺑﺮﻳﺘﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻋﺘﺮﺗﻪ ﺍﻟﻄﺎﻫﺮﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻌﻦ ﺍﻟﺪﺍﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻋﺪﺍﺋﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺪﻳﻦ،

×آصف اشرف جلالی کو حق الیقین والی روایت کا جواب×

ناظرین باوقار ہمارے سامنے آج ایک کلپ آیا اور اس میں اشرف جلالی صاحب نے حق الیقین کی ایک
عبارت سے استدلال کیا ہے::

چناچنہ ہم پہلے وہ عبارت پیش کرتے ہیں اس کے بعد اپنا جواب۔
جلالی صاحب کہتے ہیں::

(بحوالہ حق الیقین)

جناب صدیقة الکبریٰ سلام اللہ علیہا نے جب دعوی فرمایا

( از خیرطلب کہ قرآن سے انبیاء علیہ السلام کے وراث ثابت ہیں)

یہ سن کر ابوبکر نے کہا۔ اۓ رسولﷺ کی بیٹیؑ آپ کے پدر بزرگوار ﷺ مومنین پر رحیم ، مشفق کریم اور مھربان تھے اور کافروں کے لیے شدید عقاب اور دردناک عذاب تھے۔ ہم ان کو کس سے نسبت نہیں دے سکتے ہیں۔ وہ آپؑ کے پدرﷺ تھے دوسری عورتوں کے نہیں وہ ﷺ آپ کے شوہر (جناب امیرؑ) کے بھائی تھے دوسروں کے نہیں، خداﷻ نے ان کو ہر قرابت مند پر اختیار کیا اور ہر امر عظیم میں اٌن کی مدد کی آپؑ کو دوست نہیں رکھتا مگر سعادت مند اور دشمن نہیں رکھتا مگر ہر بدقسمت ۔
آپ رسولِ خداﷺ کی پاکیزہ عترتؑ ہیں اور ہمارے نیک و برگزیدہ اور خیر و سعادت اور جنت کی طرف ہماری رہنمائی کرنے والے لوگ ہیں ۔
اور تمام عورتوں میں برگزیدہ آپؑ ہیں، اور بہترین انبیاء علیہ السلام کی بیٹی ہیں اپنے کلام میں سچیؑ ہیں اور اپنی عقل کی زیادتی میں سب پر سبقت رکھتی ہیں کوئی آپ کے حق سے آپ کو الگ نہیں کر سکتا ۔
خدا کی قسم مین نے رسول اللہﷺ کی راۓ سے تجاوز نہیں کیا ہے اور جو کچھ کیا ہے ان کی اجازت سے کیا ہے میں (ابوبکر) خدا کو گواہ کرتا ہوں کہ مینے رسول اللہﷺ سے سنا۔ آپ نے فرمایا کہ
ہم گروہ انبیاء ترکہ نہیں چھوڑتے
نہ سونا نہ چاندی نہ گھر نہ گھر کے سامان ہماری میراث کتاب و حکمت اور علم پیغمبری اور جو کچھ ہمارے کھانے پینے کا ذریعہ ہے
ہمارے بعد ولی امر خلافت اٌسی میں اپنے راۓ سے حکم کرتا ہے اور میں (ابوبکر) نے ایسا ہی حکم (فیصلہ) کیا ہے کہ جو کچھ آپؑ ہم سے طلب کرتی ہیں وہ گھوڑوں اور اصلحوں کی خریداری پر صرف ہوگا ۔ جس سے مسلمان کافروں سے جنگ کریں گے اور یہ فیصلہ میں نے مسلمانوں کی راۓ سے کیا ہے
میں اس راۓ میں تنہا اور منفرد نہیں ہوں ۔ میں اپنا مال آپؑ سے دریغ نہیں کرتا جو چاہئیے لے لیجئیے ۔ آپؑ اپنے پدر بزرگوارﷺ کی امت کی سردار ہیں ۔ اور اپنے فرزندوںؑ کے لیے شجرہ طیبہ ہیں ۔ آپؑ کے فضل و شرف سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ آپ کا حکم میرے مال میں جاری ہے لیکن مسلمانوں کے مال میں آپؑ کے پدرﷺ کے ارشاد کی مخالفت میں نہیں کر سکتا

حوالہ :: [حق الیقین ٢٢٧_ ٢٢٨ اردو ]

جلالی صاحِب نے اس روایت سے تین باتین ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ::

۞١۞ یہ عبارت جو حق الیقین میں مرقوم ہے وہ شیعہ کے ہاں قابل قبول ہے

۞٢۞ انبیاء علیہ السلام کے وارث نہیں ہوتے

۞٣۞ ابوبکر ساداتؑ کو مال میں سے کچھ حصہ دیتا تھا ۔

آپ وڈیو کلپ میں ملاحضہ کر سکتے ہیں::

https://youtu.be/F4dczrhidH4 (اشرف جلالی)

چناچنہ ہم اس کا جواب ترتیب سے دیتے ہیں:

جواب اول:: ناظرین یہ ہمارے ساتھ حق الیقین سامنے اور یہ اصل بحث ص ٢٢١ اردو اور ص ٣١٩ فارسی سے شروع ہوتی ہے اور علامہ مجلسی اس کو شروع کرتے ہوئے لکھتے ہے:

در آنچه وارد شده از اخبار و سير كه از دهانهاى اهل حديث و كتب ايشان نقل ميكنم نه از كتب شيعه و راويان ايشان

اخبار و سیر جو اہلحدیث کی زبانوں سے اور ان کی کتابوں میں وارد ہوئی ہیں۔ ان کو نقل کرتا ہوں۔ شیعوں کی کی کتابوں اور ان کے راویوں کے بیان سے نہیں۔۔

حوالہ: [حق الیقین ص ٢٢١ اردو اور ص ٣١٩ فارسی]

اور اس کے تحت ص ٢٢٦-٢٢٧ اردو اور ص ٣٢٧ فارسی پر وہ روایت لاتے ہیں جس سے مخالف کا استدلال ہے تو ناظرین یہ روایات اہلسنت پر حجت تمام کے لئے نقل کی گئی ہے اور مزیدار بات یہ ہے کہ روایت کا یہ حصہ تو نقل کردیا لیکن جو سیدہ زھرا سلام اللہ علیہا کا جواب ہے وہ کیوں نقل نہیں کیا؟ وہ جواب یہ ہے:

حضرت فاطمه فرمود سبحان اللَّه هرگز پدر من مخالفت احكام كتاب خدا نميكرد و پيوسته پيروى آيات و سور قرآنى مينمود آيا با مكرهائى كه مى‌كنيد افترا بر پدر من مى‌بنديد و اين حيله بعد از وفات او شبيه است

حضرت فاطمہ ع نے فرمایا کہ سبحان اللہ! میرے پدر نے کبھی کتاب خدا کے احکام کی مخالفت نہیں کی۔ ہمیشہ آیات و قرآنی سوروں کی پیروی کرتے تھے۔ اپنے مکرو فریب کی وجہ سے میرے پدر پر افترا کرتے ہو اور یہ حیلہ ان حضرت کی وفات کے بعد انہی مکروفریب کے مانند ہے۔۔۔

حوالہ: [حق الیقین ص اردو ٢٢٨ اور ص ٣٢٧ فارسی]

ناظرین یہ تو گنگا الٹی بہہ گئی معاف کروانے آئے تھے نماز اور روزے بھی ساتھ گلے میں پڑگئے۔

جواب دوم::

جلالی صاحب نے ابوبکر کے الفاظ دھرا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ انبیاء کرام علیہ السلام کے وارث نہیں ہوتے ،

جب کہ ناظرین اگر آپ قرآنی آیات دیکھیں اس سے واضح طور پر انبیاء کرام علیہ السلام کی وراثت کا ثبوت ملتا ہے،

قرآن مجید میں ارشاد خداوند ہے:

وَوَرِثَ سُلَيْمَانُ دَاوُودَ
اور سلیمان داؤد کے وارث ہوئے

[سورة نمل ١٦]

وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِن وَرَائِي وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ ۖ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيًّا

اور میں اپنے بعد بھائی بندوں سے ڈرتا ہوں۔ اور میری بیوی بانجھ ہے سو تو ہی مجھے (خاص) اپنے پاس سے ایک وارث عطا کر۔ جو میرا بھی وارث بنے اور آل یعقوب کا بھی اور اے میرے پروردگار! تو اسے پسندیدہ بنا

[سورة مریم ٥-٦]

خود ابوبکر نے جناب زھرا سلام اللہ علیہا کا رسول ﷺ کا وارث ہونے کا اقرار کیا اور فرمایا::

مسند احمد کی روایت میں وارد ہوا ہے::

لَمَّا قُبِضَ رسول اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَرْسَلَتْ فَاطِمَةُ إلى أبي بَكْرٍ أنت وَرِثْتَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم أَمْ أَهْلُهُ قال فقال لاَ بَلْ أَهْلُهُ

جب رسول ﷺکی وفات ہوئی تو جناب زھرا سلام اللہ علیہا نے ابوبکر کے پاس نمائندہ بھیجا جس میں پیغام تھا کہ تم رسول ﷺ کے وارث بنو گے یا اس کے گھر والے، ابوبکر نے جواب دیا رسولﷺ کے گھر والے ان کے وارث ہیں

حوالہ: [مسند احمد جلد ١ ص ٧٧ رقم ١٤]

[احمد شاکر نے اس روایت کی سند کو صحیح کہا ہے ]

تبصرہ:: جلالی صاحب کا یہ کہنا کہ انبیاء کرام علیہ السلام کے وارث نہیں ہوتے ۔ یہ بات سراسر خلاف قرآن و حدیث ہے چونکہ آیات کریمہ و حدیث اقدس سے یہ ثابت ہے کہ انبیاء کرام علیہ السلام کے وارث ہوتے ہیں
مزے کی بات یہ ہے کہ خود ابوبکر کی گواہی بھی موجود ہے کہ رسولﷺ کے گھر والےؑ ان کے وارث ہیں

جلالی صاحب کہتے ہیں کہ ابوبکر نے اسی طرح نظام چلایا جس طرح رسولﷺ چلاتے تھے

جواب سوم ::
کون کہتا ہے کہ ابوبکر نے رسول ص کے طریقہ تقسیم کو اپنایا بلکہ کیا یہ وہی ابوبکر نہیں جنہوں نے
سہم ذی القربی (جو قرآن مجید کی سورہ انفال ٤١ اور سورہ حشر کی آیت ٧ سے ثابت ہے)
کو رسول ﷺ کی زندگی کے بعد ان کے قرابت داروں کو نہیں دیا۔

ابو داؤد روایت کرتے ہیں :

حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، حَدَّثَنَا جُبَيْرُ بْنُ مُطْعِمٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَمْ يَقْسِمْ لِبَنِي عَبْدِ شَمْسٍ وَلاَ لِبَنِي نَوْفَلٍ مِنَ الْخُمُسِ شَيْئًا كَمَا قَسَمَ لِبَنِي هَاشِمٍ وَبَنِي الْمُطَّلِبِ ‏.‏ قَالَ وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَقْسِمُ الْخُمُسَ نَحْوَ قَسْمِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم غَيْرَ أَنَّهُ لَمْ يَكُنْ يُعْطِي قُرْبَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم كَمَا كَانَ يُعْطِيهِمْ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَكَانَ عُمَرُ يُعْطِيهِمْ وَمَنْ كَانَ بَعْدَهُ مِنْهُمْ

(ترجمہ از ویب سائٹ): جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عبد شمس اور بنو نوفل کو خمس میں سے کچھ نہیں دیا ، جب کہ بنو ہاشم اور بنو مطلب میں تقسیم کیا ۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی خمس اسی طرح تقسیم کیا کرتے تھے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تقسیم کیا کرتے تھے ، مگر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کو نہ دیتے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کو دیا کرتے تھے ، البتہ عمر رضی اللہ عنہ انہیں دیا کرتے تھے اور عمر رضی اللہ عنہ کے بعد جو خلیفہ ہوئے وہ بھی دیا کرتے تھے

اس روایت کو علامہ البانی نے صحیح گردانا ہے۔

حوالہ: سنن ابی داؤد ص ٥٣٢، رقم ٢٩٧٨

فائنل کمنٹ:: قارئیں یوں ہمارا جواب تکمیل کی حدود تک پہنچا۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی جلالی صاحِب نے نہج البلاغہ کی ایک عبارت پڑھنے میں صریح خیانت کی تھی اور اس پر ان کو جواب دیا گیا تھا،
اور آپ احباب کو دوبارہ ان کی اس خیانت پر مطلع کیا جاتا ہے، باقی چونکہ ان کے دلائل چاہے وہ تصفیہ کی عبارت ہو، کوثر الجاری کی ہو، فواتح الرحموت سے ہو وہ اہلسنت کا آپسی معاملہ ہے اس وجہ سے ہم زیادہ عرض نہیں کرتے، لیکن جہاں شیعہ منابع سے اعتراض وارد ہوں گے وہاں کوشش ہوگی کہ فی الفور جواب دیا جائے باذن اللہ تعالی

تحریر:: آقائے خیر طلب الزیدی حفظ اللہ تعالی

ترتیب و پیشکش :: خاکسار عبداللہ صدیقی