مصاحف صحابہ اور مصحف امام علی سے متعلق نواصب کا دو متضاد موقف۔
تاریخ اور علوم قرآن سے معمولی سا آشنائی رکھنے والا ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ متعدد اصحاب کے پاس ان کا اپنا مخصوص قرآنی نسخے پائے جاتے تھے جس کو مصحف سے تعبیر کیا جاتا تھا اور جس صحابی کے پاس یہ نسخہ پایا جاتا تھا وہ مصحف بھی اسی کے نام سے منسوب ہوتا تھا جیسے مصحف ابی بن کعب، مصحف ابن مسعود، مصحف عائشہ، مصحف حفصہ، مصحف ابوموسی وغیرہ، انہی میں سے ایک مصحف علی بن ابی طالب ہے کہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب کے پاس بھی اپنا مخصوص مصحف تھا جس کو جمع و ترتیب دینے کے لئے سب سے پہلے آپ نے قدم اٹھا یا۔
اهل سنت بزرگان کے اعتراف کے مطابق بھی سبمصاحف صحابہ اور مصحف امام علی سے متعلق نواصب کا دو متضاد موقف۔
تاریخ اور علوم قرآن سے معمولی سا آشنائی رکھنے والا ہر شخص بخوبی جانتا ہے کہ متعدد اصحاب کے پاس ان کا اپنا مخصوص قرآنی نسخے پائے جاتے تھے جس کو مصحف سے تعبیر کیا جاتا تھا اور جس صحابی کے پاس یہ نسخہ پایا جاتا تھا وہ مصحف بھی اسی کے نام سے منسوب ہوتا تھا جیسے مصحف ابی بن کعب، مصحف ابن مسعود، مصحف عائشہ، مصحف حفصہ، مصحف ابوموسی وغیرہ، انہی میں سے ایک مصحف علی بن ابی طالب ہے کہ امیرالمومنین علی بن ابی طالب کے پاس بھی اپنا مخصوص مصحف تھا جس کو جمع و ترتیب دینے کے لئے سب سے پہلے آپ نے قدم اٹھا یا۔
اهل سنت بزرگان کے اعتراف کے مطابق بھی سب سے پهلا مصحف، مصحف علی بن ابی طالب ہے۔ باقی سارے مصاحف کا بعد میں نسخہ برداری ہوا۔
لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان مذکورہ دسیوں مصاحف صحابہ سے نواصب کو کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بڑے شد و مد کے ساتھ ان کی مکمل ھسٹری لکھی گئی ہے ۔
لیکن جب مصحف امام علی میں کی باری آتی ہے تو ان کی چیخیں آسمان کو پہنچ جاتی ہے کہ شیعہ قرآن کو تحریف مانتی ہے کیونکہ ان کی کتب میں مصحف علی کا ذکر آیا ہے، شیعہ کو متہم کرنے کے لئے مصحف امام علی بہت بری دلیل بن جاتی ہے کیونکہ شیعہ منابع میں اس کا تذکرہ ہوا ہے!!
مصحف علی کی خاص خصوصیات
جیسا کہ بیان ہوا هر صحابه کے پاس الگ الگ مصاحف هوا کرتے تھے جس کا کوئی انکار نهیں کرسکتا ، انہی مصاحف میں سے ایک مصحف امام علی بھی تها، اب نهیں معلوم شیعه کتب میں اس کا نقل کرنے سے صرف مصحف علی تحریف کی اتنی بڑی دلیل کیسے هوئی، باقی کسی بھی مصاحف میں ایسی کوئی بات نهیں، صرف مصحف علی !!
جبکہ بقیہ مصاحف صحابہ 180 درجہ ایک دوسرے سے مختلف تھا جن کی طرف موقعہ ملا تو کسی اور وقت نشاندھی کردینگے۔
جبکه مصحف امام علی کا موجوده قرآن کی آیات و سور میں کوئی اختلاف نهیں تها قرآن وهی تھا جو آج بین الدفتین موجود هے، فرق صرف اتنا تها که امام علی نے سور قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق جمع کیا تھا جس کی بنا پر سوره علق سے مصحف علی کا آغاز هوتا تها، جس کو شیعه سنی سب نے لکھا هے، باقی آیات وهی آیات سورے بھی وهی سورے بغیر کسی کمی بیشی کے موجود تھے، جبکہ بقیہ مصاحف صحابہ سے متعلق نصوص کا مطالعہ کرے تو ان میں اتنے شدید اختلاف پایا جاتا تھا کہ جس کا ھم سوچ بھی نہیں سکتے۔
زمان حضرت عثمان توحید مصاحف کا کام اسی شدید اختلاف کو دیکھ کر انجام پایا، اس کے باوجود کبھی نہیں سنا گیا ہے نہ دیکھا گیا ہے کسی نے اس کو دلیل تحریف کے طور پر کوئی تذکرہ کیا ہو، جب مصحف امام علی کا تذکرہ شیعہ منابع میں آنا تحریف کی دلیل ہے تو دسیوں مصاحف صحابہ کا سنی منابع میں نقل اتنے شدید اختلاف کے باجود کیوں تحریف کی دلیل نہیں ہے؟
مصحف امام علی کا بقیہ مصاحف سے اور ایک امتیازی فرق یہ بھی تھا کہ آپ نے ہر ایت کی شان نزول کی بھی نشاندہی تھی اور بعنوان تفسیر الگ طور پر حاشیه میں درج کیا تھا، بنابر این مصحف امام علی متن آیات کے علاوہ ایک کامل تفسیر بھی تھی۔
لیکن ناجانے اس کو بہانہ بناکر اتنا شور کیوں مچاتے ہیں؟
شاید امام علی نے مصحف کو جمع کرکے کوئی گناه کیا نعوذ بالله۔
یا شیعوں نے اس سے متعلق روایات کو نقل کرکے کوئی جرم کیا!!!
اب ان جہلا کو اتنی بھی توفیق نہیں جاکر مطالعہ کرے کہ مصحف علی کو صرف شیعوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ جو کچھ شیعہ نے لکھا ہے وہ سب سنی منابع میں بھی وہی بات لکھی گئی ہے ۔
مصحف علی مذکورہ خصوصیات کے ساتھ غیر قابل انکار ہے، صرف شیعہ منابع کا خاصہ نہیں ۔
سنی معتبر منابع میں کثرت سے مصحف علی کا تذکرہ آیا ہے۔ ذیل میں چند نمونہ ملاحظہ کرے ۔
1۔ علي بن أبي طالب رضوان الله عليه سعد بن عبيد بن النعمان بن عمرو بن زيد رضي الله عنه أبو الدرداء عويمر بن زيد رضي الله عنه معاذ بن جبل بن أوس رضي الله عنه أبو زيد ثابت بن زيد بن النعمان أبي بن كعب بن قيس بن مالك بن امرئ القيس عبيد بن معاوية بن زيد بن ثابت بن الضحاك ترتيب سور القرآن في مصحف أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه قال بن المنادي حدثني الحسن بن العباس قال أخبرت عن عبد الرحمن بن أبي حماد عن الحكم بن ظهير السدوسي عن عبد خير عن علي عليه السلام انه رآى من الناس طيرة عند وفاة النبي e فأقسم أنه لا يضع عن ظهره رداؤه حتى يجمع القرآن فجلس في بيته ثلاثة أيام حتى جمع القرآن فهو أول مصحف جمع فيه القرآن من قلبه وكان المصحف عند أهل جعفر ورأيت أنا في زماننا عند أبي يعلى حمزة الحسني رحمه الله مصحفا قد سقط منه أوراق بخط علي بن أبي طالب يتوارثه بنو حسن على مر الزمان وهذا ترتيب السور من ذلك المصحف
الفهرست لابن ندیم ج 1 ص 41، محمد بن اسحاق ابوالفرج الندیم، دار المعرفه، بیروت،
ابن ندیم کا نقل کردہ عبارت وہی ہے جو شیعہ منابع میں آئی ہے ۔
مصحف علی ترتیب نزول کے مطابق تها۔
جیساکہ اشارہ ہوا مصحف علی کا خاص امتیاز یا نواصب کے منطق کے مطابق جرم یه تھا که مصحف امام علی موجوده مصحف کے ترتیب کے مطابق نهیں تها کہ حمد سے آغاز اور ناس سے ختم ہوجائے، بلکه آیات اور سور ترتیب نزول کے حساب سے آپ نے جمع کیا تها اس حساب سے مصحف امام علی کی ابتدا سورہ علق سے ہوتی تھی۔
باقی موجوده مصحف سے ایک حرف میں بھی کوئی اختلاف نهیں تها.
2۔ قال أبو بكر بن الطيب : إن قال قائل : قد اختلف السلف فى ترتيب سور القرآن فمنهم من كتب فى مصحفه السور على تاريخ نزولها وقدم المكى على المدنى ، ومنهم من جعل فى أول مصحفه ) الْحَمْدُ للّهِ ( [ الفاتحة : 2 ] ، ومنهم من جعل فى أوله ) اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ( [ العلق : 1 ] ، وهذا أول مصحف علىّ . وأما مصحف ابن مسعود فإن أوله ( ملك يوم الدين ) ، ثم البقرة ثم النساء على ترتيب يختلف . روى ذلك طلحة بن مصرف أنه قرأه على يحيى بن وثاب ، وقرأ يحيى بن وثاب على علقمة ، وقرأ علقمة على عبد الله ، ومصحف أُبىّ كان أوله : الحمد لله ثم البقرة ، ثم النساء ثم آل عمران ، ثم الأنعام ثم الأعراف ، ثم المائدة ثم كذلك على اختلاف شديد . قال أبو بكر : فالجواب : أنه يحتمل أن يكون ترتيب السور على ما هى عليه اليوم فى المصحف كان على وجه الاجتهاد من الصحابة
شرح صحیح بخاری لابن بطال، ج 10 ص 238- تفسیر قرطبی ج 1 ص 59- زر کشی ، البرهان فی علوم القرآن ص 259-
مذکورہ عبارت کی اوپر وضاحت دے دی مزید بیان کی ضرورت نہیں ۔
3۔ سیوطی نے بھی نقل کیا هے: فمنهم من رتبها على النزول وهو مصحف علي كان أوله اقرأ ثم المدثر ثم ن ثم المزمل ثم تبت ثم التكوير وهكذا إلى آخر المكي والمدني وكان أول مصحف ابن مسعود البقرة ثم النساء ثم آل عمران على اختلاف شديد وكذا مصحف أبي وغيره
الاتقان فی علوم القرآن ص 171-
عبارت سیوطی بھی وہی مذکورہ مطلب کی طرف اشارہ ہے۔
4۔ ابن سعد نے تو یهاں تک لکھدیا هے که اگر مصحف امام علی تک هماری دست رسی هوتی تو ایک بڑا علمی ذخیره هاتھ آجاتا ۔
عن سليأمان الأحمسي عن أبيه قال قال علي والله أما نزلت آية إلا وقد علمت فيأما نزلت وأين نزلت وعلى من نزلت إن ربي وهب لي قلبا عقولا ولسانا طلقا أخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي أخبرنا عبيد الله بن عمرو عن معمر عن وهب بن أبي دبي عن أبي الطفيل قال قال علي سلوني عن كتاب الله فإنه ليس من آية إلا وقد عرفت بليل نزلت أم بنهار في سهل أم في جبل أخبرنا إسأماعيل بن إبراهيم عن أيوب وابن عون عن محمد قال نبئت أن عليا أبطأ عن بيعة أبي بكر فلقيه أبو بكر فقال أكرهت إأمارتي فقال لا ولكنني آليت بيمين أن لا أرتدي بردائي إلا إلى الصلاة حتى أجمع القرآن قال فزعموا أنه كتبه على تنزيله قال محمد فلو أصيب ذلك الكتاب كان فيه علم قال بن عون فسألت عكرمة عن ذلك الكتاب فلم يعرفه
طبقات ابن سعد ج 2 ص 338
ابن سعد نے کھلے الفاظ میں ساتھ وہی بات نقل کی ہے جو شیعہ منابع میں آئی ہے کہ باب علم نے امت کو ایک عظیم تحفہ پیش کی تھی مگر اس قوم نے اس کی قدر نہیں کی اور اس عظیم علمی خزینہ سے استفادہ نہیں کیا ڈر نتیجہ یہ نسخہ صرف آل علی تک محدود رہا باقی اس بحر بیکراں سے کوسوں دور رہا۔
اسی لئے شیعہ روایات میں آئی ہے جب قائم آل محمد کا ظہور ہونگے تو اسی قرآن کو لوگوں کے لئے دکھا دینگے جو امت نے ٹھکرادی تھی۔
نواصب کا شور شرابہ اسی فقرہ عبارت پر ہے کہ شیعوں کا قرآن جو مصحف امام علی ہے امام مہدی آئیںگے تو لیکر آئےگا۔ جبکہ کہ یہ بغیر کسی کمی بیشی کے وہی قرآن ہے جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، صرف فرق یہ ہے کہ ترتیب موجودہ مصحف سے مختلف ہے اور شان نزول جوکہ تفسیر ہے کا اضافہ کے ساتھ۔
5۔ حدثنا يزيد بن هارون قال أخبرنا بن عون عن محمد قال لما استخلف أبو بكر قعد علي في بيته فقيل لأبي بكر فأرسل إليه أكرهت خلافتي قال لا لم أكره خلافتك ولكن كان القرآن يزاد فيه فلما قبض رسول الله e جعلت علي أن لا أرتدي إلا إلى الصلاة حتى أجمعه للناس فقال أبو بكر نعم ما رأيت
مصنف ابن ابی شیبه ج 6 ص 148
مصنف ابی شیبہ کی روایت میں بھی وہی مطالب ذکر ہوئی ہے جو شیعہ کتب میں نقل ہوئی ہے ۔
اهل سنت کتب میں ان سب تصریحات کے ساتھ نقل کے باوجود مصحف علی شیعی کتب میں نقل هوئی هے تو اتنا واویلا کیوں؟
باقی مصاحف صحابہ سے متعلق نصوص سنی منابع میں اتنے شدید اختلاف کے باجود نقل ہونا سنیوں کا تحریف قرآن کا عقیدہ نہیں بنتا لیکن مصحف امام علی سے متعلق نصوص شیعہ منابع میں تذکرہ ہونا شیعوں کا عقیدہ تحریف کی بڑی دلیل ہے!!
جزاک اللہ برادر ابوہدی مازم سے پهلا مصحف، مصحف علی بن ابی طالب ہے۔ باقی سارے مصاحف کا بعد میں نسخہ برداری ہوا۔

لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ان مذکورہ دسیوں مصاحف صحابہ سے نواصب کو کوئی مسئلہ نہیں ہے بلکہ بڑے شد و مد کے ساتھ ان کی مکمل ھسٹری لکھی گئی ہے ۔
لیکن جب مصحف امام علی میں کی باری آتی ہے تو ان کی چیخیں آسمان کو پہنچ جاتی ہے کہ شیعہ قرآن کو تحریف مانتی ہے کیونکہ ان کی کتب میں مصحف علی کا ذکر آیا ہے، شیعہ کو متہم کرنے کے لئے مصحف امام علی بہت بری دلیل بن جاتی ہے کیونکہ شیعہ منابع میں اس کا تذکرہ ہوا ہے!!
مصحف علی کی خاص خصوصیات
جیسا کہ بیان ہوا هر صحابه کے پاس الگ الگ مصاحف هوا کرتے تھے جس کا کوئی انکار نهیں کرسکتا ، انہی مصاحف میں سے ایک مصحف امام علی بھی تها، اب نهیں معلوم شیعه کتب میں اس کا نقل کرنے سے صرف مصحف علی تحریف کی اتنی بڑی دلیل کیسے هوئی، باقی کسی بھی مصاحف میں ایسی کوئی بات نهیں، صرف مصحف علی !!
جبکہ بقیہ مصاحف صحابہ 180 درجہ ایک دوسرے سے مختلف تھا جن کی طرف موقعہ ملا تو کسی اور وقت نشاندھی کردینگے۔
جبکه مصحف امام علی کا موجوده قرآن کی آیات و سور میں کوئی اختلاف نهیں تها قرآن وهی تھا جو آج بین الدفتین موجود هے، فرق صرف اتنا تها که امام علی نے سور قرآن کو ترتیب نزول کے مطابق جمع کیا تھا جس کی بنا پر سوره علق سے مصحف علی کا آغاز هوتا تها، جس کو شیعه سنی سب نے لکھا هے، باقی آیات وهی آیات سورے بھی وهی سورے بغیر کسی کمی بیشی کے موجود تھے، جبکہ بقیہ مصاحف صحابہ سے متعلق نصوص کا مطالعہ کرے تو ان میں اتنے شدید اختلاف پایا جاتا تھا کہ جس کا ھم سوچ بھی نہیں سکتے۔
زمان حضرت عثمان توحید مصاحف کا کام اسی شدید اختلاف کو دیکھ کر انجام پایا، اس کے باوجود کبھی نہیں سنا گیا ہے نہ دیکھا گیا ہے کسی نے اس کو دلیل تحریف کے طور پر کوئی تذکرہ کیا ہو، جب مصحف امام علی کا تذکرہ شیعہ منابع میں آنا تحریف کی دلیل ہے تو دسیوں مصاحف صحابہ کا سنی منابع میں نقل اتنے شدید اختلاف کے باجود کیوں تحریف کی دلیل نہیں ہے؟
مصحف امام علی کا بقیہ مصاحف سے اور ایک امتیازی فرق یہ بھی تھا کہ آپ نے ہر ایت کی شان نزول کی بھی نشاندہی تھی اور بعنوان تفسیر الگ طور پر حاشیه میں درج کیا تھا، بنابر این مصحف امام علی متن آیات کے علاوہ ایک کامل تفسیر بھی تھی۔
لیکن ناجانے اس کو بہانہ بناکر اتنا شور کیوں مچاتے ہیں؟
شاید امام علی نے مصحف کو جمع کرکے کوئی گناه کیا نعوذ بالله۔
یا شیعوں نے اس سے متعلق روایات کو نقل کرکے کوئی جرم کیا!!!
اب ان جہلا کو اتنی بھی توفیق نہیں جاکر مطالعہ کرے کہ مصحف علی کو صرف شیعوں نے نقل نہیں کیا ہے بلکہ جو کچھ شیعہ نے لکھا ہے وہ سب سنی منابع میں بھی وہی بات لکھی گئی ہے ۔
مصحف علی مذکورہ خصوصیات کے ساتھ غیر قابل انکار ہے، صرف شیعہ منابع کا خاصہ نہیں ۔
سنی معتبر منابع میں کثرت سے مصحف علی کا تذکرہ آیا ہے۔ ذیل میں چند نمونہ ملاحظہ کرے ۔
1۔ علي بن أبي طالب رضوان الله عليه سعد بن عبيد بن النعمان بن عمرو بن زيد رضي الله عنه أبو الدرداء عويمر بن زيد رضي الله عنه معاذ بن جبل بن أوس رضي الله عنه أبو زيد ثابت بن زيد بن النعمان أبي بن كعب بن قيس بن مالك بن امرئ القيس عبيد بن معاوية بن زيد بن ثابت بن الضحاك ترتيب سور القرآن في مصحف أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه قال بن المنادي حدثني الحسن بن العباس قال أخبرت عن عبد الرحمن بن أبي حماد عن الحكم بن ظهير السدوسي عن عبد خير عن علي عليه السلام انه رآى من الناس طيرة عند وفاة النبي e فأقسم أنه لا يضع عن ظهره رداؤه حتى يجمع القرآن فجلس في بيته ثلاثة أيام حتى جمع القرآن فهو أول مصحف جمع فيه القرآن من قلبه وكان المصحف عند أهل جعفر ورأيت أنا في زماننا عند أبي يعلى حمزة الحسني رحمه الله مصحفا قد سقط منه أوراق بخط علي بن أبي طالب يتوارثه بنو حسن على مر الزمان وهذا ترتيب السور من ذلك المصحف
الفهرست لابن ندیم ج 1 ص 41، محمد بن اسحاق ابوالفرج الندیم، دار المعرفه، بیروت،
ابن ندیم کا نقل کردہ عبارت وہی ہے جو شیعہ منابع میں آئی ہے ۔
مصحف علی ترتیب نزول کے مطابق تها۔
جیساکہ اشارہ ہوا مصحف علی کا خاص امتیاز یا نواصب کے منطق کے مطابق جرم یه تھا که مصحف امام علی موجوده مصحف کے ترتیب کے مطابق نهیں تها کہ حمد سے آغاز اور ناس سے ختم ہوجائے، بلکه آیات اور سور ترتیب نزول کے حساب سے آپ نے جمع کیا تها اس حساب سے مصحف امام علی کی ابتدا سورہ علق سے ہوتی تھی۔
باقی موجوده مصحف سے ایک حرف میں بھی کوئی اختلاف نهیں تها.
2۔ قال أبو بكر بن الطيب : إن قال قائل : قد اختلف السلف فى ترتيب سور القرآن فمنهم من كتب فى مصحفه السور على تاريخ نزولها وقدم المكى على المدنى ، ومنهم من جعل فى أول مصحفه ) الْحَمْدُ للّهِ ( [ الفاتحة : 2 ] ، ومنهم من جعل فى أوله ) اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ ( [ العلق : 1 ] ، وهذا أول مصحف علىّ . وأما مصحف ابن مسعود فإن أوله ( ملك يوم الدين ) ، ثم البقرة ثم النساء على ترتيب يختلف . روى ذلك طلحة بن مصرف أنه قرأه على يحيى بن وثاب ، وقرأ يحيى بن وثاب على علقمة ، وقرأ علقمة على عبد الله ، ومصحف أُبىّ كان أوله : الحمد لله ثم البقرة ، ثم النساء ثم آل عمران ، ثم الأنعام ثم الأعراف ، ثم المائدة ثم كذلك على اختلاف شديد . قال أبو بكر : فالجواب : أنه يحتمل أن يكون ترتيب السور على ما هى عليه اليوم فى المصحف كان على وجه الاجتهاد من الصحابة
شرح صحیح بخاری لابن بطال، ج 10 ص 238- تفسیر قرطبی ج 1 ص 59- زر کشی ، البرهان فی علوم القرآن ص 259-
مذکورہ عبارت کی اوپر وضاحت دے دی مزید بیان کی ضرورت نہیں ۔
3۔ سیوطی نے بھی نقل کیا هے: فمنهم من رتبها على النزول وهو مصحف علي كان أوله اقرأ ثم المدثر ثم ن ثم المزمل ثم تبت ثم التكوير وهكذا إلى آخر المكي والمدني وكان أول مصحف ابن مسعود البقرة ثم النساء ثم آل عمران على اختلاف شديد وكذا مصحف أبي وغيره
الاتقان فی علوم القرآن ص 171-
عبارت سیوطی بھی وہی مذکورہ مطلب کی طرف اشارہ ہے۔
4۔ ابن سعد نے تو یهاں تک لکھدیا هے که اگر مصحف امام علی تک هماری دست رسی هوتی تو ایک بڑا علمی ذخیره هاتھ آجاتا ۔
عن سليأمان الأحمسي عن أبيه قال قال علي والله أما نزلت آية إلا وقد علمت فيأما نزلت وأين نزلت وعلى من نزلت إن ربي وهب لي قلبا عقولا ولسانا طلقا أخبرنا عبد الله بن جعفر الرقي أخبرنا عبيد الله بن عمرو عن معمر عن وهب بن أبي دبي عن أبي الطفيل قال قال علي سلوني عن كتاب الله فإنه ليس من آية إلا وقد عرفت بليل نزلت أم بنهار في سهل أم في جبل أخبرنا إسأماعيل بن إبراهيم عن أيوب وابن عون عن محمد قال نبئت أن عليا أبطأ عن بيعة أبي بكر فلقيه أبو بكر فقال أكرهت إأمارتي فقال لا ولكنني آليت بيمين أن لا أرتدي بردائي إلا إلى الصلاة حتى أجمع القرآن قال فزعموا أنه كتبه على تنزيله قال محمد فلو أصيب ذلك الكتاب كان فيه علم قال بن عون فسألت عكرمة عن ذلك الكتاب فلم يعرفه
طبقات ابن سعد ج 2 ص 338
ابن سعد نے کھلے الفاظ میں ساتھ وہی بات نقل کی ہے جو شیعہ منابع میں آئی ہے کہ باب علم نے امت کو ایک عظیم تحفہ پیش کی تھی مگر اس قوم نے اس کی قدر نہیں کی اور اس عظیم علمی خزینہ سے استفادہ نہیں کیا ڈر نتیجہ یہ نسخہ صرف آل علی تک محدود رہا باقی اس بحر بیکراں سے کوسوں دور رہا۔
اسی لئے شیعہ روایات میں آئی ہے جب قائم آل محمد کا ظہور ہونگے تو اسی قرآن کو لوگوں کے لئے دکھا دینگے جو امت نے ٹھکرادی تھی۔
نواصب کا شور شرابہ اسی فقرہ عبارت پر ہے کہ شیعوں کا قرآن جو مصحف امام علی ہے امام مہدی آئیںگے تو لیکر آئےگا۔ جبکہ کہ یہ بغیر کسی کمی بیشی کے وہی قرآن ہے جو آج ہمارے ہاتھوں میں ہے، صرف فرق یہ ہے کہ ترتیب موجودہ مصحف سے مختلف ہے اور شان نزول جوکہ تفسیر ہے کا اضافہ کے ساتھ۔
5۔ حدثنا يزيد بن هارون قال أخبرنا بن عون عن محمد قال لما استخلف أبو بكر قعد علي في بيته فقيل لأبي بكر فأرسل إليه أكرهت خلافتي قال لا لم أكره خلافتك ولكن كان القرآن يزاد فيه فلما قبض رسول الله e جعلت علي أن لا أرتدي إلا إلى الصلاة حتى أجمعه للناس فقال أبو بكر نعم ما رأيت
مصنف ابن ابی شیبه ج 6 ص 148
مصنف ابی شیبہ کی روایت میں بھی وہی مطالب ذکر ہوئی ہے جو شیعہ کتب میں نقل ہوئی ہے ۔
اهل سنت کتب میں ان سب تصریحات کے ساتھ نقل کے باوجود مصحف علی شیعی کتب میں نقل هوئی هے تو اتنا واویلا کیوں؟
باقی مصاحف صحابہ سے متعلق نصوص سنی منابع میں اتنے شدید اختلاف کے باجود نقل ہونا سنیوں کا تحریف قرآن کا عقیدہ نہیں بنتا لیکن مصحف امام علی سے متعلق نصوص شیعہ منابع میں تذکرہ ہونا شیعوں کا عقیدہ تحریف کی بڑی دلیل ہے!!
جزاک اللہ برادر ابوہدی مازم