امام علی علیہ اسلام و امام حسن کی افواج میں کون لوگ شامل تھے ؟۔۔

 

ہر غیر شیعہ کو دعوت فکر کہ جہاں کہیں متقدمین گروہوں خاص کر اہل بیت اطہار علیھم السلام کی سپاہ یا سپاہ میں چھپے خوارج و منافقین کا ذکر آتا ہے تو فورا آج کے امامی شیعان سے جوڑ کر طعن شروع کر دیتے ہیں۔ امام علی علیہ اسلام کے ساتھ اکثریت صحابہ و تابعین ہی کی تھی تو پھر سب کو شیعہ مان لو اور اب یہ بتاو کہ اس وقت سنی جو ہمیشہ سے بڑی اکثریت میں تھے وہ کدھر غائب تھے؟۔۔

جبکہ مستند و متواتر حدیث ثقلین کے مطابق تو نجات قرآن و اہل بیت اطہار علیھم السلام کا دامن تھام لینے میں ہے بلکہ یہی حکم صحابہ کے لئیے بھی تھا تو پھر کیا اہل سنت شروع ہی سے اہل بیت اطہار علیھم السلام کا دامن چھوڑ چکے تھے ؟۔۔ اگر جواب ہاں میں دیتے ہو تو پھر خسارے میں رہ گئے۔ اور اگر اس وقت کے اہل سنت بھی سپاہ امام المتقین میں شامل تھے تو وہ بھی سیاسی شیعان علی علیہ السلام ہی تھے۔ حدیث ثقلین میں پیغام بڑا واضع ہے۔

 

   قرآن اور اہل بیت علیھم اسلام

🛇🛇🛇🖓

عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ : إِنِّي تَارِکٌ فِيْکُمْ خَلِيْفَتَيْنِ : کِتَابَ اللهِ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ. أَوْ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ إِلَي الْأَرْضِ، وَعِتْرَتِي أَهْلَ بَيْتِي، وَإِنَّهُمَا لَنْ يَّتَفَرَّقَا حَتَّي يَرِدَا عَلَيَّ الْحَوْضَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.

’’حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : بے شک میں تم میں دو نائب چھوڑ کر جا رہا ہوں. ایک اللہ تعالیٰ کی کتاب جو کہ آسمان و زمین کے درمیان پھیلی ہوئی رسی (کی طرح) ہے اور میری عترت یعنی میرے اہل بیت اور یہ کہ یہ دونوں اس وقت تک ہرگز جدا نہیں ہوں گے جب تک یہ میرے پاس حوض کوثر پر نہیں پہنچ جاتے۔‘‘ اس حدیث کو امام احمد بن حنبل نے روایت کیا ہے۔

الحديث رقم 2 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 181، الرقم : 21618ھ، و الهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 162

چند سکین جو نواصب و خوارج پیج پر بڑےطمطراق سے لگائے جاتے ہیں۔🖓