ابن ولید اور مالک بن نویرہ
تاریخ کا ایک ایسا کڑوا سچ جو فریقین کی کئ تردیدی اور صفائ میں لکھی گئ تحریروں سے بھی جھوٹا ثابت نہ ہو سکا
اور تاریخ نے اس کو اپنے اوراق میں محفوظ کر کے ابن ولید کے قبیحہ فعل کی روداد بیان کردی
ذیل کی تحریر بھی اسی سلسلے میں کی جا رہی ھے
اس پر اسناد کا رونا رونے والے جہلاء ہمیشہ سے روتے رہیں گے
کیونکہ تاریخ نے جو لکھ دیا وہ کبھی مٹ نہیں سکتا
اور نہ ہی ان تاریخی حقائق کو جھٹلایا جا سکتا ھے
سب سے پہلے ہم اس روایت کی سند پہ بات کریں گے
اس کے بعد مختلف کتب سے اس واقع کو نقل کر کے نتیجہ دے دیں گے ان شاء اللہ عزوجل
قال ابو جعفر فیما کتب بہ إلی السری بن یحیحی یذکر عن شعیب بن ابراہیم أنہ حدثہ عن سیف بن عمر عن خزیمة بن شجرة العقفانی عن عثمان بن سوید عن سوید بن المثعبة الریاحی
تاریخ طبری سنہ 11 ھجری ص 277
نمبر 1
سری بن یحیحی
ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں
کہ سری بن یحیحی کو امام احمد بن حنبل امام ابو زرعہ یحیحی ابن معین اور امام نسائ نے ثقہ قرار دیا ھے
میزان الاعتدال ج 3 ص 176
نمبر 2
شعیب بن ابراہیم
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے اس ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ھے
اور اس نے سیف بن عمر سے روایات نقل کی ہیں
لسان المیزان ج 4 ص 247
نمبر 3
سیف بن عمر
جمہور علماۓ اہلسنت کے نزدیک یہ ضعیف ھے
تقریباً تمام ہی رجال اہلسنت نے اس کو ضعیف قرار دیا ھے
لیکن اس کا ضعف تاریخی روایات پر اہمیت نہیں رکھتا کیوں کہ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں واشگاف لکھا ھے کہ تاریخی روایات میں یہ معتمد ھے جبکہ حدیثی روایات میں یہ ضعیف ھے
تقریب التہذیب ابن حجر حالات سیف بن عمر
اب جبکہ ابن الولید کا کارنامہ جو کہ مالک بن نویرہ ؓ کا قتل اور اس کی زوجہ سے افعال قبیحہ کا ارتکاب تاریخی مصادر میں سے ھے اس لیے اس کا انکار ممکن ہی نہیں
دوسرا
تاریخی طبری میں 700 سے زائد روایات تاریخی لحاظ سے سیف بن عمر سے مروی ہیں اگر اس کی روایات کو چھوڑ دیا جاۓ اہلسنت کی طبری اوندھے منہ گر پڑے گی
اس لیے مجبوراً آپ کو طبری کی روایات کو ماننا پڑے گا
نمبر 4
خزیمة بن شجرة العقفانی
امام دار قطنی نے اپنی کتاب الموتلف والمختلف میں ان کو خزیمة بن رزام بن مازن بن ثعلبہ لکھا ھے
الموتلف والمختلف دارقطنی ج 2 ص 910
اسی طرح ابن ماکولا نے اپنی کتاب الاکمال ج 3 ص 140 پر خزیمہ بن شجرہ العقفانی کے حوالے سے وہی روایت نقل کی ھے جس کی سند ہم نے طبری سے لگائ ھے اور اس میں وہ لکھتے ہیں خزیمة بن شجرہ اصل میں خزیمہ بن رزام بن ماذن بن ثعلبہ بن سعد بن زیان ھے
نیچے ریڈ دائرے میں ہم نے واضح کر دیا ھے کہ
لکھتے ہیں حیث ذکر البخاری فی باب خزیمہ اولہ خاء معجمة خزیمة بن شجرہ عن عطاء قولہ روی عنہ الثوری
اور نیچے ابن ماکولا مکمل ان کے آباء کا ذکر کیا ھے
لہذا یہ بھی ثقہ ہیں کیونکہ بخاری نے باب خزیمہ میں کہا ھے کہ عطاء نے کہا ان سے سفیان الثوری نے روایت کی ھے
اور سفیان ثوری کی ثقاہت کسی تعارف کی محتاج نہیں یاد رہے کہ کتاب الاکمال ابن ماکولا دارقطنی کی کتاب الموتلف والمختلف کے تکلمة کے طور پر لکھی گئ ھے
نمبر 5 ,6
عثمان بن سوید اور سوید بن المثعبة
یہ بھی قابل اعتماد راوی ہیں کیونکہ ان سے معتدد روایات نقل ہیں المغازی کے حوالے سے
ملاحظہ ہو
الاكتفاء في تنقيح كتاب الضعفاء للحافظ علاءالدين مغلطاي بن قليج
سند کے بعد ہم اس واقع کا پس منظر پیش کرتے ہیں
کیا مالک بن نویرہ مرتد ہو چکے تھے جو زکواة کے منکر تھے ہرگز بھی نہیں کیوں کہ ان پر ابن قتادة ؓ جیسے صحابی کی گواہی بھی موجود ھے
واقع یوں ھے کہ خلیفہ اول جناب ابو بکر کے زمانہ خلافت میں جب منکرین زکواة کے فتنہ نے سر اٹھایا تو ان سے نمٹنے کے لیے ابن الولید کو بھیجا گیا
اور کہا گیا اگر کوئ آذان و نماز پڑھے تو اسے قتل نہ کیا جاۓ
جب کہ جناب مالک اور اس کے ساتھیوں نے آذان بھی کہی اور نماز بھی پڑھی
لیکن پھر بھی ان کو کس ایماء پر نشانہ بنایا گیا
اس کے بعد جناب ابوبکر کا بیت المال سے اس کا جزیہ دینا اور جناب عمر کا ابن ولید پر غصہ ہونا اور خلیفہ سے ان کی معزولی کی درخواست کرنا ظاہر کرتا ھے کہ ابن ولید کے ہاتھ سے ایک غیر شریعی کام سرزد ہوا تھا
لشکر کی ایک ٹولی کے ہمراہ بھیجا ابو قتادہ ۱بھی ان کے ساتھ تھا، انہوں نے قبیلہٴ مالک پر شب خون مارا، بعد میں ابو قتادہ کہتا تھا: جب ہماری فوج نے رات میں ان کا محاصرہ کرلیاتو قبیلہٴ مالک وحشت میں پڑ کر جنگی اسلحہ لے کر آمادہ ہوگئے
ابو قتادہ نے کہا: ہم نے کہا : ہم مسلمان ہیں ۔
انہوں نے کہا: ہم بھی مسلمان ہیں ۔
لشکر کے سپہ سالار نے کہا؛ پھر کیوں جنگی اسلحہ لئے ہوئے ہو؟
انہوں نے کہا؛ تم لوگ کیوں مسلح ہو؟
ہم نے کہا: اگر تم لوگ سچ کہتے ہو کہ مسلمان ہو تو اسلحہ کو زمین پر رکھدو۔
ابو قتادہ نے کہا: انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا ، پھر ہم نے نماز پڑھی اور انہوں نے بھی نماز پڑھی ۔
ابن ابی الحدید اپنی شرح میں اس کے بعد کہتا ہے :
” جوں ہی انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا تو ان سب کو اسیر بنا کر رسیوں سے باندھ کر خالد۱ کے پاس لے آئے “
کنزل العمال ۲ اور تاریخ یعقوبی ۳ میں اس داستان کو یوں نقل کیا گیا ہے :
۱۔ فلما وضعو السلاح ربُطوا اٴُساری فاتوا بھم خالدا
۲۔ کنز ل العمال ، ج ۳/ ۱۳۲ ۔۳۔ تاریخ یعقوبی، ج ۲/ ۱۱۰۔
مالک بن نویرہ ، گفتگو کیلئے خالد کے پاس آئے ان کی بیوی بھی انکے پیچھے آئی ، جب خالد کی نظر اس عورت پڑی تو وہ اس پر فریفتہ ہوگیا اور مالک سے مخاطب ہوکر کہا : خدا کی قسم تم پھر سے اپنے قبیلہ کی طرف واپس نہیں جاسکتے ہو ، میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔
کنزل العمال کی تیسری جلد ۱۳۶ پر کہتے ہیں :
” ابن ولید نے دعویٰ کیا کہ مالک بن نویرہ مرتد ہوگیا ہے اس دعویٰ میں اس کی دلیل اور استناد ایک بات تھی کہ اظہار کرتا تھا کہ جو بات مالک سے اس کے کان تک پہنچی ہے ، مالک نے اس خبر کو جھٹلا دیا اور کہا: میں بدستور مسلمان ہوں اور میں نے اپنے دین میں کوئی تبدیل نہیں کی ہے ، نیز ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر نے بھی اس کی صداقت پر شہادت دی ، اتنے میں خالد نے مالک کو آگے کھینچ کر ضرار بن ازور کو حکم دیا کہ مالک کا سر قلم کردے ، اس کے بعد خالد نے مالک کی بیوی( جس کا نام ام تمیم تھا) کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔
تا ریخ ابو الفداء ۲ اور وفیات الاعیان میں آیا ہے :
عبد اللہ بن عمر اور قتادہٴ انصاری دونوں اس مجلس میں حاضر تھے اور انہوں نے مالک کے بارے میں خالد سے گفتگو کی، لیکن خالد نے ان کی بات کو قبول نہیںکیا ، مالک نے کہا: خالد !تم مجھے ابو بکر کے پاس بھیجدو تا کہ وہ خود میرے بارے میں فیصلہ کریں ، خالد نے جواب میں کہا: خدا مجھے معاف نہ کرے اگر میں تجھے معاف کردوں گا اس کے بعد ضرار بن ازور سے مخاطب ہوکر کہا: مالک کا سر قلم کردو !
۱۔ کنز العمال ،ج ۳/ ۱۳۲
۲۔ تاریخ ابو الفداء ، ص ۱۵۸ ۔
مالک نے اپنی بیوی پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور خالد سے مخاطب ہوکر کہا؛ اس عورت نے مجھے قتل کروایا ہے وہ عورت انتہائی خوبصورت تھی ، خالد نے کہا : بلکہ خدا نے تجھے قتل کیا ہے چونکہ اسلام سے تم نے منہ پھیر لیا ہے !
مالک نے کہا: میں مسلمان ہوں اور اسلام پر پابند ہوں ۔
خالد نے کہا: ضرار اس کا سر قلم کردو اور اس نے بھی اس کا سر تن سے جدا کردیاابن ولید اور مالک بن نویرہ
تاریخ کا ایک ایسا کڑوا سچ جو فریقین کی کئ تردیدی اور صفائ میں لکھی گئ تحریروں سے بھی جھوٹا ثابت نہ ہو سکا
اور تاریخ نے اس کو اپنے اوراق میں محفوظ کر کے ابن ولید کے قبیحہ فعل کی روداد بیان کردی
ذیل کی تحریر بھی اسی سلسلے میں کی جا رہی ھے
اس پر اسناد کا رونا رونے والے جہلاء ہمیشہ سے روتے رہیں گے
کیونکہ تاریخ نے جو لکھ دیا وہ کبھی مٹ نہیں سکتا
اور نہ ہی ان تاریخی حقائق کو جھٹلایا جا سکتا ھے
سب سے پہلے ہم اس روایت کی سند پہ بات کریں گے
اس کے بعد مختلف کتب سے اس واقع کو نقل کر کے نتیجہ دے دیں گے ان شاء اللہ عزوجل
قال ابو جعفر فیما کتب بہ إلی السری بن یحیحی یذکر عن شعیب بن ابراہیم أنہ حدثہ عن سیف بن عمر عن خزیمة بن شجرة العقفانی عن عثمان بن سوید عن سوید بن المثعبة الریاحی
تاریخ طبری سنہ 11 ھجری ص 277
نمبر 1
سری بن یحیحی
ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں
کہ سری بن یحیحی کو امام احمد بن حنبل امام ابو زرعہ یحیحی ابن معین اور امام نسائ نے ثقہ قرار دیا ھے
میزان الاعتدال ج 3 ص 176
نمبر 2
شعیب بن ابراہیم
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے اس ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ھے
اور اس نے سیف بن عمر سے روایات نقل کی ہیں
لسان المیزان ج 4 ص 247
نمبر 3
سیف بن عمر
جمہور علماۓ اہلسنت کے نزدیک یہ ضعیف ھے
تقریباً تمام ہی رجال اہلسنت نے اس کو ضعیف قرار دیا ھے
لیکن اس کا ضعف تاریخی روایات پر اہمیت نہیں رکھتا کیوں کہ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں واشگاف لکھا ھے کہ تاریخی روایات میں یہ معتمد ھے جبکہ حدیثی روایات میں یہ ضعیف ھے
تقریب التہذیب ابن حجر حالات سیف بن عمر
اب جبکہ ابن الولید کا کارنامہ جو کہ مالک بن نویرہ ؓ کا قتل اور اس کی زوجہ سے افعال قبیحہ کا ارتکاب تاریخی مصادر میں سے ھے اس لیے اس کا انکار ممکن ہی نہیں
دوسرا
تاریخی طبری میں 700 سے زائد روایات تاریخی لحاظ سے سیف بن عمر سے مروی ہیں اگر اس کی روایات کو چھوڑ دیا جاۓ اہلسنت کی طبری اوندھے منہ گر پڑے گی
اس لیے مجبوراً آپ کو طبری کی روایات کو ماننا پڑے گا
نمبر 4
خزیمة بن شجرة العقفانی
امام دار قطنی نے اپنی کتاب الموتلف والمختلف میں ان کو خزیمة بن رزام بن مازن بن ثعلبہ لکھا ھے
الموتلف والمختلف دارقطنی ج 2 ص 910
اسی طرح ابن ماکولا نے اپنی کتاب الاکمال ج 3 ص 140 پر خزیمہ بن شجرہ العقفانی کے حوالے سے وہی روایت نقل کی ھے جس کی سند ہم نے طبری سے لگائ ھے اور اس میں وہ لکھتے ہیں خزیمة بن شجرہ اصل میں خزیمہ بن رزام بن ماذن بن ثعلبہ بن سعد بن زیان ھے
نیچے ریڈ دائرے میں ہم نے واضح کر دیا ھے کہ
لکھتے ہیں حیث ذکر البخاری فی باب خزیمہ اولہ خاء معجمة خزیمة بن شجرہ عن عطاء قولہ روی عنہ الثوری
اور نیچے ابن ماکولا مکمل ان کے آباء کا ذکر کیا ھے
لہذا یہ بھی ثقہ ہیں کیونکہ بخاری نے باب خزیمہ میں کہا ھے کہ عطاء نے کہا ان سے سفیان الثوری نے روایت کی ھے
اور سفیان ثوری کی ثقاہت کسی تعارف کی محتاج نہیں یاد رہے کہ کتاب الاکمال ابن ماکولا دارقطنی کی کتاب الموتلف والمختلف کے تکلمة کے طور پر لکھی گئ ھے
نمبر 5 ,6
عثمان بن سوید اور سوید بن المثعبة
یہ بھی قابل اعتماد راوی ہیں کیونکہ ان سے معتدد روایات نقل ہیں المغازی کے حوالے سے
ملاحظہ ہو
الاكتفاء في تنقيح كتاب الضعفاء للحافظ علاءالدين مغلطاي بن قليج
سند کے بعد ہم اس واقع کا پس منظر پیش کرتے ہیں
کیا مالک بن نویرہ مرتد ہو چکے تھے جو زکواة کے منکر تھے ہرگز بھی نہیں کیوں کہ ان پر ابن قتادة ؓ جیسے صحابی کی گواہی بھی موجود ھے
واقع یوں ھے کہ خلیفہ اول جناب ابو بکر کے زمانہ خلافت میں جب منکرین زکواة کے فتنہ نے سر اٹھایا تو ان سے نمٹنے کے لیے ابن الولید کو بھیجا گیا
اور کہا گیا اگر کوئ آذان و نماز پڑھے تو اسے قتل نہ کیا جاۓ
جب کہ جناب مالک اور اس کے ساتھیوں نے آذان بھی کہی اور نماز بھی پڑھی
لیکن پھر بھی ان کو کس ایماء پر نشانہ بنایا گیا
اس کے بعد جناب ابوبکر کا بیت المال سے اس کا جزیہ دینا اور جناب عمر کا ابن ولید پر غصہ ہونا اور خلیفہ سے ان کی معزولی کی درخواست کرنا ظاہر کرتا ھے کہ ابن ولید کے ہاتھ سے ایک غیر شریعی کام سرزد ہوا تھا
لشکر کی ایک ٹولی کے ہمراہ بھیجا ابو قتادہ ۱بھی ان کے ساتھ تھا، انہوں نے قبیلہٴ مالک پر شب خون مارا، بعد میں ابو قتادہ کہتا تھا: جب ہماری فوج نے رات میں ان کا محاصرہ کرلیاتو قبیلہٴ مالک وحشت میں پڑ کر جنگی اسلحہ لے کر آمادہ ہوگئے
ابو قتادہ نے کہا: ہم نے کہا : ہم مسلمان ہیں ۔
انہوں نے کہا: ہم بھی مسلمان ہیں ۔
لشکر کے سپہ سالار نے کہا؛ پھر کیوں جنگی اسلحہ لئے ہوئے ہو؟
انہوں نے کہا؛ تم لوگ کیوں مسلح ہو؟
ہم نے کہا: اگر تم لوگ سچ کہتے ہو کہ مسلمان ہو تو اسلحہ کو زمین پر رکھدو۔
ابو قتادہ نے کہا: انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا ، پھر ہم نے نماز پڑھی اور انہوں نے بھی نماز پڑھی ۔
ابن ابی الحدید اپنی شرح میں اس کے بعد کہتا ہے :
” جوں ہی انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا تو ان سب کو اسیر بنا کر رسیوں سے باندھ کر خالد۱ کے پاس لے آئے “
کنزل العمال ۲ اور تاریخ یعقوبی ۳ میں اس داستان کو یوں نقل کیا گیا ہے :
۱۔ فلما وضعو السلاح ربُطوا اٴُساری فاتوا بھم خالدا
۲۔ کنز ل العمال ، ج ۳/ ۱۳۲ ۔۳۔ تاریخ یعقوبی، ج ۲/ ۱۱۰۔
مالک بن نویرہ ، گفتگو کیلئے خالد کے پاس آئے ان کی بیوی بھی انکے پیچھے آئی ، جب خالد کی نظر اس عورت پڑی تو وہ اس پر فریفتہ ہوگیا اور مالک سے مخاطب ہوکر کہا : خدا کی قسم تم پھر سے اپنے قبیلہ کی طرف واپس نہیں جاسکتے ہو ، میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔
کنزل العمال کی تیسری جلد ۱۳۶ پر کہتے ہیں :
” ابن ولید نے دعویٰ کیا کہ مالک بن نویرہ مرتد ہوگیا ہے اس دعویٰ میں اس کی دلیل اور استناد ایک بات تھی کہ اظہار کرتا تھا کہ جو بات مالک سے اس کے کان تک پہنچی ہے ، مالک نے اس خبر کو جھٹلا دیا اور کہا: میں بدستور مسلمان ہوں اور میں نے اپنے دین میں کوئی تبدیل نہیں کی ہے ، نیز ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر نے بھی اس کی صداقت پر شہادت دی ، اتنے میں خالد نے مالک کو آگے کھینچ کر ضرار بن ازور کو حکم دیا کہ مالک کا سر قلم کردے ، اس کے بعد خالد نے مالک کی بیوی( جس کا نام ام تمیم تھا) کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔
تا ریخ ابو الفداء ۲ اور وفیات الاعیان میں آیا ہے :
عبد اللہ بن عمر اور قتادہٴ انصاری دونوں اس مجلس میں حاضر تھے اور انہوں نے مالک کے بارے میں خالد سے گفتگو کی، لیکن خالد نے ان کی بات کو قبول نہیںکیا ، مالک نے کہا: خالد !تم مجھے ابو بکر کے پاس بھیجدو تا کہ وہ خود میرے بارے میں فیصلہ کریں ، خالد نے جواب میں کہا: خدا مجھے معاف نہ کرے اگر میں تجھے معاف کردوں گا اس کے بعد ضرار بن ازور سے مخاطب ہوکر کہا: مالک کا سر قلم کردو !
۱۔ کنز العمال ،ج ۳/ ۱۳۲
۲۔ تاریخ ابو الفداء ، ص ۱۵۸ ۔
مالک نے اپنی بیوی پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور خالد سے مخاطب ہوکر کہا؛ اس عورت نے مجھے قتل کروایا ہے وہ عورت انتہائی خوبصورت تھی ، خالد نے کہا : بلکہ خدا نے تجھے قتل کیا ہے چونکہ اسلام سے تم نے منہ پھیر لیا ہے !
مالک نے کہا: میں مسلمان ہوں اور اسلام پر پابند ہوں ۔
خالد نے کہا: ضرار اس کا سر قلم کردو اور اس نے بھی اس کا سر تن سے جدا کردیاابن ولید اور مالک بن نویرہ
تاریخ کا ایک ایسا کڑوا سچ جو فریقین کی کئ تردیدی اور صفائ میں لکھی گئ تحریروں سے بھی جھوٹا ثابت نہ ہو سکا
اور تاریخ نے اس کو اپنے اوراق میں محفوظ کر کے ابن ولید کے قبیحہ فعل کی روداد بیان کردی
ذیل کی تحریر بھی اسی سلسلے میں کی جا رہی ھے
اس پر اسناد کا رونا رونے والے جہلاء ہمیشہ سے روتے رہیں گے
کیونکہ تاریخ نے جو لکھ دیا وہ کبھی مٹ نہیں سکتا
اور نہ ہی ان تاریخی حقائق کو جھٹلایا جا سکتا ھے
سب سے پہلے ہم اس روایت کی سند پہ بات کریں گے
اس کے بعد مختلف کتب سے اس واقع کو نقل کر کے نتیجہ دے دیں گے ان شاء اللہ عزوجل
قال ابو جعفر فیما کتب بہ إلی السری بن یحیحی یذکر عن شعیب بن ابراہیم أنہ حدثہ عن سیف بن عمر عن خزیمة بن شجرة العقفانی عن عثمان بن سوید عن سوید بن المثعبة الریاحی
تاریخ طبری سنہ 11 ھجری ص 277
نمبر 1
سری بن یحیحی
ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں
کہ سری بن یحیحی کو امام احمد بن حنبل امام ابو زرعہ یحیحی ابن معین اور امام نسائ نے ثقہ قرار دیا ھے
میزان الاعتدال ج 3 ص 176
نمبر 2
شعیب بن ابراہیم
ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں کہ ابن حبان نے اس ذکر اپنی کتاب الثقات میں کیا ھے
اور اس نے سیف بن عمر سے روایات نقل کی ہیں
لسان المیزان ج 4 ص 247
نمبر 3
سیف بن عمر
جمہور علماۓ اہلسنت کے نزدیک یہ ضعیف ھے
تقریباً تمام ہی رجال اہلسنت نے اس کو ضعیف قرار دیا ھے
لیکن اس کا ضعف تاریخی روایات پر اہمیت نہیں رکھتا کیوں کہ ابن حجر نے تقریب التہذیب میں واشگاف لکھا ھے کہ تاریخی روایات میں یہ معتمد ھے جبکہ حدیثی روایات میں یہ ضعیف ھے
تقریب التہذیب ابن حجر حالات سیف بن عمر
اب جبکہ ابن الولید کا کارنامہ جو کہ مالک بن نویرہ ؓ کا قتل اور اس کی زوجہ سے افعال قبیحہ کا ارتکاب تاریخی مصادر میں سے ھے اس لیے اس کا انکار ممکن ہی نہیں
دوسرا
تاریخی طبری میں 700 سے زائد روایات تاریخی لحاظ سے سیف بن عمر سے مروی ہیں اگر اس کی روایات کو چھوڑ دیا جاۓ اہلسنت کی طبری اوندھے منہ گر پڑے گی
اس لیے مجبوراً آپ کو طبری کی روایات کو ماننا پڑے گا
نمبر 4
خزیمة بن شجرة العقفانی
امام دار قطنی نے اپنی کتاب الموتلف والمختلف میں ان کو خزیمة بن رزام بن مازن بن ثعلبہ لکھا ھے
الموتلف والمختلف دارقطنی ج 2 ص 910
اسی طرح ابن ماکولا نے اپنی کتاب الاکمال ج 3 ص 140 پر خزیمہ بن شجرہ العقفانی کے حوالے سے وہی روایت نقل کی ھے جس کی سند ہم نے طبری سے لگائ ھے اور اس میں وہ لکھتے ہیں خزیمة بن شجرہ اصل میں خزیمہ بن رزام بن ماذن بن ثعلبہ بن سعد بن زیان ھے
نیچے ریڈ دائرے میں ہم نے واضح کر دیا ھے کہ
لکھتے ہیں حیث ذکر البخاری فی باب خزیمہ اولہ خاء معجمة خزیمة بن شجرہ عن عطاء قولہ روی عنہ الثوری
اور نیچے ابن ماکولا مکمل ان کے آباء کا ذکر کیا ھے
لہذا یہ بھی ثقہ ہیں کیونکہ بخاری نے باب خزیمہ میں کہا ھے کہ عطاء نے کہا ان سے سفیان الثوری نے روایت کی ھے
اور سفیان ثوری کی ثقاہت کسی تعارف کی محتاج نہیں یاد رہے کہ کتاب الاکمال ابن ماکولا دارقطنی کی کتاب الموتلف والمختلف کے تکلمة کے طور پر لکھی گئ ھے
نمبر 5 ,6
عثمان بن سوید اور سوید بن المثعبة
یہ بھی قابل اعتماد راوی ہیں کیونکہ ان سے معتدد روایات نقل ہیں المغازی کے حوالے سے
ملاحظہ ہو
الاكتفاء في تنقيح كتاب الضعفاء للحافظ علاءالدين مغلطاي بن قليج
سند کے بعد ہم اس واقع کا پس منظر پیش کرتے ہیں
کیا مالک بن نویرہ مرتد ہو چکے تھے جو زکواة کے منکر تھے ہرگز بھی نہیں کیوں کہ ان پر ابن قتادة ؓ جیسے صحابی کی گواہی بھی موجود ھے
واقع یوں ھے کہ خلیفہ اول جناب ابو بکر کے زمانہ خلافت میں جب منکرین زکواة کے فتنہ نے سر اٹھایا تو ان سے نمٹنے کے لیے ابن الولید کو بھیجا گیا
اور کہا گیا اگر کوئ آذان و نماز پڑھے تو اسے قتل نہ کیا جاۓ
جب کہ جناب مالک اور اس کے ساتھیوں نے آذان بھی کہی اور نماز بھی پڑھی
لیکن پھر بھی ان کو کس ایماء پر نشانہ بنایا گیا
اس کے بعد جناب ابوبکر کا بیت المال سے اس کا جزیہ دینا اور جناب عمر کا ابن ولید پر غصہ ہونا اور خلیفہ سے ان کی معزولی کی درخواست کرنا ظاہر کرتا ھے کہ ابن ولید کے ہاتھ سے ایک غیر شریعی کام سرزد ہوا تھا
لشکر کی ایک ٹولی کے ہمراہ بھیجا ابو قتادہ ۱بھی ان کے ساتھ تھا، انہوں نے قبیلہٴ مالک پر شب خون مارا، بعد میں ابو قتادہ کہتا تھا: جب ہماری فوج نے رات میں ان کا محاصرہ کرلیاتو قبیلہٴ مالک وحشت میں پڑ کر جنگی اسلحہ لے کر آمادہ ہوگئے
ابو قتادہ نے کہا: ہم نے کہا : ہم مسلمان ہیں ۔
انہوں نے کہا: ہم بھی مسلمان ہیں ۔
لشکر کے سپہ سالار نے کہا؛ پھر کیوں جنگی اسلحہ لئے ہوئے ہو؟
انہوں نے کہا؛ تم لوگ کیوں مسلح ہو؟
ہم نے کہا: اگر تم لوگ سچ کہتے ہو کہ مسلمان ہو تو اسلحہ کو زمین پر رکھدو۔
ابو قتادہ نے کہا: انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا ، پھر ہم نے نماز پڑھی اور انہوں نے بھی نماز پڑھی ۔
ابن ابی الحدید اپنی شرح میں اس کے بعد کہتا ہے :
” جوں ہی انہوں نے اسلحہ کو زمین پر رکھدیا تو ان سب کو اسیر بنا کر رسیوں سے باندھ کر خالد۱ کے پاس لے آئے “
کنزل العمال ۲ اور تاریخ یعقوبی ۳ میں اس داستان کو یوں نقل کیا گیا ہے :
۱۔ فلما وضعو السلاح ربُطوا اٴُساری فاتوا بھم خالدا
۲۔ کنز ل العمال ، ج ۳/ ۱۳۲ ۔۳۔ تاریخ یعقوبی، ج ۲/ ۱۱۰۔
مالک بن نویرہ ، گفتگو کیلئے خالد کے پاس آئے ان کی بیوی بھی انکے پیچھے آئی ، جب خالد کی نظر اس عورت پڑی تو وہ اس پر فریفتہ ہوگیا اور مالک سے مخاطب ہوکر کہا : خدا کی قسم تم پھر سے اپنے قبیلہ کی طرف واپس نہیں جاسکتے ہو ، میں تجھے قتل کر ڈالوں گا۔
کنزل العمال کی تیسری جلد ۱۳۶ پر کہتے ہیں :
” ابن ولید نے دعویٰ کیا کہ مالک بن نویرہ مرتد ہوگیا ہے اس دعویٰ میں اس کی دلیل اور استناد ایک بات تھی کہ اظہار کرتا تھا کہ جو بات مالک سے اس کے کان تک پہنچی ہے ، مالک نے اس خبر کو جھٹلا دیا اور کہا: میں بدستور مسلمان ہوں اور میں نے اپنے دین میں کوئی تبدیل نہیں کی ہے ، نیز ابو قتادہ اور عبد اللہ بن عمر نے بھی اس کی صداقت پر شہادت دی ، اتنے میں خالد نے مالک کو آگے کھینچ کر ضرار بن ازور کو حکم دیا کہ مالک کا سر قلم کردے ، اس کے بعد خالد نے مالک کی بیوی( جس کا نام ام تمیم تھا) کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔
تا ریخ ابو الفداء ۲ اور وفیات الاعیان میں آیا ہے :
عبد اللہ بن عمر اور قتادہٴ انصاری دونوں اس مجلس میں حاضر تھے اور انہوں نے مالک کے بارے میں خالد سے گفتگو کی، لیکن خالد نے ان کی بات کو قبول نہیںکیا ، مالک نے کہا: خالد !تم مجھے ابو بکر کے پاس بھیجدو تا کہ وہ خود میرے بارے میں فیصلہ کریں ، خالد نے جواب میں کہا: خدا مجھے معاف نہ کرے اگر میں تجھے معاف کردوں گا اس کے بعد ضرار بن ازور سے مخاطب ہوکر کہا: مالک کا سر قلم کردو !
۱۔ کنز العمال ،ج ۳/ ۱۳۲
۲۔ تاریخ ابو الفداء ، ص ۱۵۸ ۔
مالک نے اپنی بیوی پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالی اور خالد سے مخاطب ہوکر کہا؛ اس عورت نے مجھے قتل کروایا ہے وہ عورت انتہائی خوبصورت تھی ، خالد نے کہا : بلکہ خدا نے تجھے قتل کیا ہے چونکہ اسلام سے تم نے منہ پھیر لیا ہے !
مالک نے کہا: میں مسلمان ہوں اور اسلام پر پابند ہوں ۔
خالد نے کہا: ضرار اس کا سر قلم کردو اور اس نے بھی اس کا سر تن سے جدا کردیا