کیا امام علی ابن ابی طالبؑ کے مطابق انکے اور معاویہ ابن ابی سفیان کی طرف سے قتل ہونے والے تمام جنت میں جائیں گے ؟ :

فرمان سیدنا علی المرتضیؓ :

قَتْلَايَ وَقَتْلَى مُعَاوِيَةَ فِي الْجَنَّةِ

میری طرف سے شہید ہونے والے اور معاویہ کی طرف سے شہید ہونے والے تمام جنتی ہیں۔ (المعجم الکبیر للطبرانی حدیث ۱۶۰۴۴ صحیح)

جب ہم نے اصل کتاب کی طرف رجوع کیا تو وہاں امام طبرانی (المتوفی ۳۶۰ھ) نے یہ روایت اس سند کے ساتھ لائی ہے۔

حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ إِسْحَاقَ التُّسْتَرِيُّ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ، ثنا زَيْدُ بْنُ أَبِي الزَّرْقَاءِ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ بُرْقَانَ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ الْأَصَمِّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ: قَتْلَايَ وَقَتْلَى مُعَاوِيَةَ فِي الْجَنَّةِ

⛔معجم الکبیر - طبرانی // جلد ۸ // صفحہ ۲۷۵ - ۲۷۶ // رقم ۱۶۰۴۴ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔

اسکی سند میں میں ایک راوی " الْحُسَيْنُ بْنُ أَبِي السَّرِيِّ الْعَسْقَلَانِيُّ " پر سخت جرح آئی ہے۔

امام ذہبی (المتوفی ۷۴۸ھ) نے اپنی کتاب میں انکے بارے میں یوں لکھا :

الحسين بن أبي السري العسقلاني، أخو محمد بن أبي السري.
ضعفه أبو داود.
وقال أخوه محمد: لا تكتبوا عن أخي، فإنه كذاب.
وقال أبو عروبة الحراني: هو خال أمي، وهو كذاب

حسین بن ابی السری عسقلانی۔ یہ محمد بن ابی السری کا بھائی تھا۔
اسکو ابو داود نے ضعیف قرار دیا ہے۔
اسکے بھائی محمد نے کہا : میرے بھائی (یعنی حسین بن ابی السری) سے کچھ مت لکھو کیونکہ وہ جھوٹا ہے۔
ابو عروبۃ حرانی جو اسکی ماں کا ماموں تھا اس نے بھی اسکو جھوٹا قرار دہا۔

⛔میزان الاعتدال - ذہبی // جلد // صفحہ ۲۹۰ // رقم ۲۰۰۶ // طبع مکتبہ رحمانیہ لاہور پاکستان۔

اپنی دوسری کتاب میں ذہبی نے اسکے بارے میں یوں لکھا :

الحسين بن أبي السري العسقلاني أخو محمد
ضعفه أبو داود وقال أبو عروبه الحراني هو خال أمي وهو كذاب

حسین بن ابی السری عسقلانی، یہ محمد کا بھائی تھا۔
اسکو ابو داود نے ضعیف قرار دیا۔ ابو عروبۃ حرانی جو اسکی ماں کا ماموں تھا اس نے اسکو جھوٹا قرار دیا ہے۔

⛔المغنی فی الضعفاء - ذہبی // جلد ۱ // صفحہ ۲۶۳ // رقم ۱۵۲۶ // طبع دار الکتب العلمیہ بیروت لبنان۔

ابن حجر عسقلانی (المتوفی ۸۵۲ھ) نے انکے بارے میں یوں لکھا :

الحسين ابن المتوكل ابن عبد الرحمن أبو عبد الله ابن أبي السري بفتح المهملة وكسر الراء ضعيف

حسین بن متوکل بن عبدالرحمان، ابو عبد اللہ بن ابی السری۔۔۔ یہ ضعیف ہے۔

⛔تقریب تہذیب - ابن حجر عسقلانی // صفحہ ۲۰۵ // رقم ۱۳۴۳ // طبع دار المنھاج بیروت لبنان۔

لہذا ثابت ہوا کہ یہ روایت سخت ضعیف بلکہ من گھڑت ہے۔ جس نے بھی اسکے آگے " صحیح " کا حکم لگایا ہے اس نے واقعی میں عوام الناس کو دھونکہ دیا ہے۔

 

برادر ذوالفقار مشرقی کے پیج سے منقول