بسم ﺍﻟﻠﻪ ﺍﻟﺮﺣﻤﻦ ﺍﻟﺮﺣﻴﻢ
ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﻪ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﻴﻦ، ﻭﺍﻟﺼﻼﺓ ﻭﺍﻟﺴﻼﻡ ﻋﻠﻰ ﺧﻴﺮ ﺧﻠﻘﻪ ﻭﺃﻓﻀﻞ ﺑﺮﻳﺘﻪ ﻣﺤﻤﺪ ﻭﻋﺘﺮﺗﻪ ﺍﻟﻄﺎﻫﺮﻳﻦ، ﻭﺍﻟﻠﻌﻦ ﺍﻟﺪﺍﺋﻢ ﻋﻠﻰ ﺃﻋﺪﺍﺋﻬﻢ ﺃﺟﻤﻌﻴﻦ ﺇﻟﻰ ﻳﻮﻡ ﺍﻟﺪﻳﻦ،

قارئین کرام ::
ناصبی حضرات معاویہ، یزید ، ابن زیاد کے مظالم کو چھپانے کے لیے طرح طرح کے بھانے بناتے ہیں ۔ تاکہ ان کے کیے مظالم پر پردہ ڈال دیا جائے ۔ اور ساتھ ہی شیعان حیدر کرار علیہ السلام پر الزام عائد کرتے ہیں کہ قاتلان حسین ابن علی علیہ السلام شیعہ ہیں [ نعوذ باللہ]

اسی طرح نواصب روضة الكافي کی ایک مجھول روایت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں

روایت کچھ یوں ہے

والحسين بن محمد عن محمد بن النهدي عن معاوية بن حكيم عن بعض رجاله عن عنبسة بن بجاد عن ابی عبد الله عليه السلام في قول الله عزوجل فاما ان كان من اصحاب اليمين فسلام لك من اصحاب اليمين فقال قال رسول الله صلى الله عليه و اله لعلي عليه السلام هم
شيعتك فسلم ولدك منهم أن يقتلوهم

آنخضرت ﷺ نے حضرت علی المرتضی سے فرمایا : اے علی اپنے بیٹوں کو اپنے شیعوں
سے بچانا وہ انہیں قتل کر دیں گے
[شیعہ مذہب کی معتبر کتاب کافی صفحہ ۲۲۰ جلدنمبر ۸]

الجواب

اللہ تعالی نے قرآن مجید میں [سورۂ واقعہ] کے اندر اصحاب یمین کے جنتی وبہشتی ہونے کی بار بار بشارت دی ہے
جیسا کہ ان کے حق میں فرمایا:
وَأَمَّآ إِن كَانَ مِنْ أَصْحَٰبِ ٱلْيَمِينِ
اور اگر اصحاب یمین میں سے ہے
فَسَلَٰمٌ لَّكَ مِنْ أَصْحَٰبِ ٱلْيَمِينِ
تو اصحاب یمین کی طرف سے تمہارے لئے سلام ہے

[56-Al-Waqi'a : 91]

پیش کردہ روایت
کا ترجمہ بالکل غلط کیا گیا ہے اور پوری روایت کا ترجمہ بالکل غلط کیا گیا ہے،
سلم ماضی معلوم باب علم يعلم
ثلاثی مجرد سے ہے اور جس کا معنی اپنے فائل '’ولدك''
اور مفعول ان يقتلوهم‘‘ اور تعلق
منهم‘ سے مل کر یہ بنتا ہے کہ ”پس تیری اولاد ان کی طرف سے قتل ہونے سے سلامت ہوگی۔

لیجیئے ہم پوری روایت کا ترجمہ پیش کئے دیتے ہیں :

حضرت امام ابي عبد اللہ ( جعفر صادق علیہ السلام ) سے روایت ہے،
قول باری تعالی میں اگر مرده اصحاب یمیں سے ہے پس سلامتی ہے واسطے اصحاب یمین کے
(روز قیامت جن کے دائیں ہاتھ میں اعمال نامے ہونگے)

حضرت رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: وہ تیرے شیعہ
ہیں "فسلم " پس تیرے واسطے ان کی طرف سے سلامتی ہے کہ وہ تیرے بچوں کے قائل نہیں“

اس حدیث کی شرح میں علامہ محمد باقر مجلسی علیہ رحمہ لکھتے ہیں: اي ان كان المتوفی من
اصحاب اليمين فسلام لك من اصحاب اليمين قال الشيخ الطوسي اي فترى فيهم ما
تحب لهم من السلامة و من المكاره و الخوف و قيل معناه فسلام لك ايها الانسان الذي هو من اصحاب اليمين من عذاب الله و سلمت عليك ملائكة الله عن قتادة قال الفراء فسلام لك انك من اصحاب اليمين فحذف انك و قيل معناه فسلام لك
منهم في الجنة لانهم يكونون معك و يكون لك بمعنى عليك اقول على تفسيره و يحتمل أن يكون ذکر خصوص القتل على سبيل المثال فيكون المعنى حينئذ أنه كان المتوفي من اصحاب اليمين فحاله ظاهر في السعادة لانه كان بحيث سلم اهل بيتك من يده و لسانه و كان معاونة لهم فافهم علة الجزاء مقامه
ترجمہ ::
اگر وہ مرنے والا شخص اصحاب یمین سے ہے تو ایسے اصحاب یمین کی طرف سے تو آپ
کے لیے سلامتی کا پیغام ہے شیخ طوسی رح نے فرمایا کہ آپ ان سے متعلق ناپسندیدہ امور اور خوف زدہ
کرنے والی باتوں سے سلامتی سے متعلق جو کچھ پسند کرتے ہیں وہ دیکھ لیں گے یہ بھی کہا گیا ہے کہ
اے انسان جو اصحاب یمین میں سے ہے تمہارے لئے اللہ تعالی کے عذاب سے سلامتی کا پیغام ہے
اور تجھ پر اللہ کے فرشتے سلام کرتے ہیں۔ قیادہ سے مروی ہے کہ فراء نے کہا: وفسلام لك انك
من أصحاب اليمين میں سے انك محذوف ہے بقول دیگر اس کا معنی یہ ہے کہ جنت میں
ان کی طرف سے آپ کو سلام ہوگا اس لیے کہ وہ آپ کے ساتھ ہوں گے لك بمعني عليك ہوگا ،
میں (باقر مجلسی علیہ رحمہ ) رسول خدا صہ کی تفسیر کے مطابق کہتا ہوں کہ احتمال ہے کہ خاص کر قتل کا ذکر، بطور مثال ہو، اس لحاظ سے معنی یہ ہوگا کہ اگر مرنے والا اصحاب یمین میں سے ہو تب تو اس کا حال سعادت مندی میں ظاہر ہی، اس لیے کہ جب آپ کے اہل بیت اس کے ہاتھ اور زبان سے محفوظ رہے بلکہ وہ ان کا معاون و مدد گار رہا چنانچہ جزاء کی علت کو اس (جزاء) کے مقام پر ذکر کیا گیا۔
[مرآة العقول ج ۴ ص ۳۶۳ طبع تہران]

مندرجہ بالا تشریح اور وضاحت سے اصل مفہوم و مطلب پوری طرح واضح ہوگیا ہے لیکن کم فہم کو اپنے آئینہ میں مسخ شدہ مفہوم ہی نظر آتا ہے۔

ثانیا یہ کہ درج بالا روایت محدثین کے نزد یک ضعیف منقطع اور مرسل ہے
چنانچہ علامہ محمد باقرمجلسی نے اس روایت کے متعلق لکھا ہے: (والثالث و السبعون و الثالث مائة مرسل بل ضعیف بالنهدي على المشور) یه روایت مرسل بلکہ اس کے راوی محمد بن احمد النہدی کی وجہ سے ضعیف ہے یہی مشہور قول ہے۔“

(مرأة العقول للمجلسی، ج ۴، ص ۳۶۳)

منقطع اس لیے ہے کہ اس کی سند میں "عن بعض رجاله ‘‘ موجود ہے

اور انتہائی ستم یہ ہے کہ سلم ماضی کو امر کا صیغہ قرار دے کر یہ ترجمہ کیا جائے کہ اپنے بیٹوں کو ان سے بچاو تو اس سے معاذ اللہ یہ
لازم آتا ہے کہ حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اصحاب الیمین کو قاتل اور دشمن قرار دے رہے ہیں جبکہ اللہ تعالی انہیں جنتی قرار دیتا ہے اس سے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکذیب اور توہین کا پہلو نکلتا ہے [نعوذ باللہ] جو سراسر کفر ہے۔

اللہ تعالی اور ان کا رسول تو شیعہ کو اصحاب یمین یعنی جنتی قرار دیں تو یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ جنتیوں کو ہی قاتلان امام حسین علیہ السلام بھی فرما دیں؟

اب آتے ہیں کتب اہلسنت کی طرف::

امام ابن الجوزی (المتوفیٰ: ۵۹۷ھ) روایت کرتے ہیں:

قال ابن أبي الدنيا: وحدثني سلمة بن شبيب قال: حدثني الحميدي عن سفيان، قال: سمعت سالم بن أبي حفصة يقول:
قال الحسن: جعل يزيد بن معاوية يطعن بالقضيب موضع في رسول الله صلى الله عليه وسلم وا ذلاه!!! قال سفيان: وأخبرت أن الحسن في أثر هذا الكلام قال:
سمية أمسى نسلها عدد الحصى ... وبنت رسول الله ليس لها نسل
ترجمہ: حضرت حسن البصری فرماتے ہیں: ہائے کیا پستی اور ذلّت ہے! یزید بن معاویہ اس جگہ چھڑیاں مار رہا ہے جہاں رسول اللہ ﷺ کا منہ لگا ہے۔پھر حضرت حسن البصری نے یہ کلام پڑھا: (جس کا مفہوم ہے)
"سمیہ (ابن زیاد کی دادی) کی نسل سنگریزوں کے برابر ہوگئے اور رسول اللہ ﷺ کی بیٹی کی نسل کوئی نہ رہی"

[الرد علی المعتصب العنید ط العلمیہ،صفحہ نمبر ۵۸]

ایک دوسری جگہ ابن الجوزی لکھتے ہیں ::

قال ابن الجوزي : أنبأ عبد الوهاب بن المبارك ، قال : أنبأ أبو الحسين بن عبد الجبار ، قال : أنبأ الحسين بن علي الطناجيري ، ثنا خالد بن خداش ، قال : ثنا حماد بن زيد ، عن جميل بن مرة ، عن أبي الوَضِي ، قال : نُحرتْ الإبل التي حُمل عليها رأس الحسين وأصحابه فلم يستطيعوا أكلها ، كانت لحومها أمرّ من الصبر.
فلما وصلت الرؤوس إلى يزيد جلس ودعا بأشراف أهل الشام فأجلسهم حوله ، ثم وضع الرأس بين يديه ، وجعل ينكت بالقضيب على فيه ، ويقول :
نفلق هاماً ، من رجال أعزَّةٍ ... علينا ، وهم كانوا أعقّ وأظلما

ابن جوزی نے ابو وضی سے روایت کی کہ جن اونٹوں پر امام حسین کے مبارک سر، اور ان کے اصحاب کو لے جایا گیا، جب انہیں ذبح کیا گیا، تو کوئی نہ کھا سکا۔ اور جب وہ مبارک سر یزید پلید کو ملا، تو اس نے اہل شام کے بڑے لوگوں کو بلایا، اور مبارک سر کو ہاتھوں میں رکھ کر چھڑی سے مارنے لگا

[الرد على المتعصب العنيد المانع من ذمّ يزيد ص ٥٧]

قارئین کرام ::
آپ فیصلہ کیجیئے کیا یہ مظالم کم تھے جو اہلبیت علیہ السلام و اصحاب اہلبیت علیہ السلام پر ڈھائے گئے ؟
نواصب نے یزید بن معاویہ کو بچانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا ہوگا لیکن وہ اپنے ہر شر میں ناکام رہے

بقول شاعر ::
نورخدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

تحفظ عقائد شیعہ