👇👇👇⚠اھلبیت (ع) کے گھروں کے دروازے :

ناصبین و خارجین کا مکتب تشیع پہ اعتراض،

اور اسکا منہ توڑ علمی و تحقیقی مفصل جواب ۔۔ !!

کیا حضرت علی (ع) نے یہ فرمایا ھے :

کہ اھلبیت (ع) کے گھروں کے دروازے نہیں ھوتے ??

یہ مجہول روایت مخالف قرآن پاک ھے ۔ اور " سد الابواب " جیسی مستند روایت کے متضاد بھی ۔ جس پہ قطعی یقین نہیں کیا جا سکتا ۔

اھلسنت معترضین کا اعتراض ۔

جب سیدہ خاتون جنت (ص) کے گھر کا دروازہ ھی نہیں تھا ۔ تو خلیفہ نے کیسے جلایا ۔۔۔ !! یہ اھلبیت (ع) سے بغض و عناد اور دشمنی کی انتہا ھے ۔ کہ اپنے مخصوص و ممدوح حضرات کو انکے سیاہ کارناموں سے بچانے کیلیئے بھانت بھانت کی بولیاں بولی جاتی ھیں ۔ جسمیں اللہ کی توحید اور پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت پہ حرف آتا ھو ۔ یا اھلبیت (ع) کی توھین ھوتی ھو ۔ تو بھلے ھو ، مگر چند مخصوص افراد کے کالے کرتوتوں کا بھرپور دفاع کیا جاتا ھے ۔

اعتراض :

خصال شیخ صدوق رح میں ایک ضعیف روایت ھے ۔ جسکو علامہ مجلسی رح نے بحارالانوار میں نقل کیا ھے ۔ حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا : کہ " اھلبیت (ع) کے گھروں کی چھتیں اور دروازے نہیں ھوتے اور نہ ھی (معازاللہ) پردہ ھوتا ھے ۔" جسکو بنیاد بنا کر مکتب تشیع پہ اعتراض کیا جاتا ھے ۔ کہ جب دروازہ ھی نہیں تھا ۔ تو احراق باب سیدہ (ص) کیسے ھوا ۔۔۔ ??

جواب :

سب سے پہلے اس ضمن میں جو روایت پیش کی جاتی ھے ۔ اسکو ملاحظہ کیجیئے ۔ سند روایت :

❌حدثنا ابی و محمد بن الحسن رضی اللہ عنھما قالا حدثنا سعد بن عبداللہ قال حدثنا احمد بن الحسین بن سعید قال حدثنی جعفوبن محمد النوفلی عن یعقوب بن یزیدقال قال ابوعبداللہ جعفربن احمد بن محمد بن عیسی بن محمد بن علی بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب قال حدثنا یعقوب بن عبداللہ الکوفی قال حدثنا موسی بن عبیدہ ۔۔۔۔الی آخر ۔۔۔۔

اصل روایت :

نحن اهل بیت محمد ص لا سقوف لبیوتنا و لا ابواب و لا ستو ۔۔۔

🚭 اس سے یہ استدلال کیا جاتا ھے :

کہ حب حضرت زھراء علیھا السلام کے گھر کا دروازہ ھی نہیں تھا ۔ تو دروازہ جلانے کا واقعہ جھوٹ پر مبنی ھے ۔

جواب :

1⃣ پہلا راوی ۔۔۔۔۔

شیخ صدوق رح نےجو روایت نقل کی ھے :

اسکی سندضعیف ھے ۔ سند میں احمد بن الحسین بن سعید نام کا راوی ھے ۔ جسکو علماء نے ضعیف الحدیث اور غالی کہا ھے ۔ (2) اور اھلسنت کے نزدیک بھی یہ راوی ضعیف ھے ۔

2⃣ دوسرا ضعیف راوی ۔۔۔۔۔

جعفر بن محمد النوفلی اسکے شیعہ ھونے کے بارے میں ایک ھی روایت ھے ۔ جسکا راوی بھی خود نوفلی ھے ۔ (3) اوراسکے موثق ھونے کی کوئی محکم دلیل نہیں ھے ۔ اھلسنت منابع میں بھی مجہول ھے ۔

3⃣ تیسرا راوی ۔۔۔۔۔

جعفر بن احمد بن محمد بن عیسی مجہول ھے ۔ کسی شیعہ کتب رجال میں اسکا ذکر تک نہیں ۔ اور اھلسنت کی کتب رجال میں بھی مجہول ھے ۔

4⃣ چوتھا راوی ۔۔۔۔۔

یعقوب بن عبداللہ الکوفی مجہول و مہمل ھے ۔

5⃣ پانچواں راوی ۔۔۔۔۔

موسی بن عبیدہ بن نشیط یہ راوی بھی شیعہ کتب میں مجہول ھے ۔اھلسنت کی نظرمیں بھی ضعیف ھے ۔

یہ رھا روایت کی سندکا حال :

اسکے علاوہ اگر عقل سے سوچا جائے ۔

تو یہ روایت روایت سدالابواب سے جو کہ تواتر سے ثابت ھے ۔ تضاد رکھتی ھے ۔

روایت سد الابواب میں رسول خدا (ص) حکم دے رھے ھیں ۔ کہ علی (ع) کے علاوہ سبکے دروازے بند کر دو ۔ تو جب دروازہ ھی نہیں تھا ۔ تو بند کرنے یا کھلا رھنے کا حکم دینا کیا معنی رکھتا ھے ??

روایت سد الابواب صحیح سند سے :

ابن حجر فتح الباری میں روایت کو نقل کرتے ھوئے کہتا ھے ۔ کہ مسجد میں اصحاب کے دروازوں کو بند کرنے کے بارے میں بہت سی احادیث صحیح سند کے ساتھ آئی ھیں ۔ جو ابوبکر کے دروازے کے مسجد میں کھلے رھنے کےخلاف ھیں ۔ انمیں سے سعد بن ابی وقاص کی روایت ھے ۔ کہ رسولخدا (ص) نےحضرت علی (ع) کے دورازے کے علاوہ سب اصحاب کے دروازوں کو بند کروا دیا ۔

اصل روایت :

إبن حجر - فتح الباري شرح صحيح البخاري - كتاب فضائل الصحابة - باب قول النبي (ص) سدوا الأبواب إلا باب أبي بكر - رقم الصفحة : (18) ۔ ( تنبيه ) : جاء في سد الأبواب التي حول المسجد أحاديث يخالف ظاهرها حديث الباب منها حديث سعد بن أبي وقاص ، قال : أمرنا رسول الله (ص) بسد الأبواب الشارعة في المسجد وترك باب علي ، أخرجه أحمد والنسائي وإسناده قوي ۔

ثابت ھوا ۔ کہ روایت جھوٹی ھے ۔ اوراس سے استدلال غلط ھے ۔ البتہ روایات کے علاوہ قرآن پاک میں بھی مدینہ کے گھروں کے دروازے ھونے کا ذکر موجود ھے ۔

قرآنی آیات ملاحظہ کریں :

لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَىٰ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَلَا عَلَىٰٓ أَنْفُسِكُمْ أَنْ تَأْكُلُوا مِنْ بُيُوتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ آبَآئِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أُمَّهَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ إِخْوَانِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخَوَاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَعْمَامِكُمْ أَوْ بُيُوتِ عَمَّاتِكُمْ أَوْ بُيُوتِ أَخْوَالِكُمْ أَوْ بُيُوتِ خَالَاتِكُمْ أَوْ مَا مَلَكْتُمْ مَفَاتِحَهُٓ أَوْ صَدِيقِكُمْ ۚ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَأْكُلُوا جَمِيعًا أَوْ أَشْتَاتًا ۚ فَإِذَا دَخَلْتُمْ بُيُوتًا فَسَلِّمُوا عَلَىٰٓ أَنْفُسِكُمْ تَحِيَّةً مِنْ عِنْدِ اللَّهِ مُبَارَكَةً طَيِّبَةً ۚ كَذَٰلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ۔

نابینا کیلیئے کوئی حرج نہیں ھے ۔ اور لنگڑے آدمی کیلیئے بھی کوئی حرج نہیں ھے اور مریض کیلیئے بھی کوئی عیب نہیں ھے اور خود تمہارے لیئے بھی کوئی گناہ نہیں ھے ۔ کہ اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماں اور نانی دادی کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچاؤں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموؤں کے گھروں سے یا اپنی خالاؤں کے گھروں سے (یا جن گھروں کی کنجیاں) تمہارے اختیار میں ھیں ۔ یا اپنے دوستوں کے گھروں سے کھانا کھا لو ۔ اور تمہارے لیئے اسمیں بھی کوئی حرج نہیں ھے ۔ کہ سب ملکر کھاؤ یا متفرق طریقہ سے کھاؤ ۔ بس جب گھروں میں داخل ھو ۔ تو کم از کم اپنے ھی اوپر سلام کر لو ۔ کہ یہ پروردگار کیطرف سے نہایت ھی مبارک اور پاکیزہ تحفہ ھے ۔ اور پروردگار اسی طرح اپنی آیتوں کو واضح طریقہ سے بیان کرتا ھے ۔ کہ شاید تم عقل سے کام لے سکو ۔ (٦١)

النور - 61 ۔

آیت میں صریح طورپر کنجیوں یعنی چابیوں کا ذکر ھے ۔ اور واضح ھے ۔ کہ چابی دورازے پر لگے ھوئے تالی میں لگتی ھے ۔

دوسری آیت :

وَلَيْسَ الْبِرُّ بِأَنْ تَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ ظُهُورِهَا وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقَىٰ ۗ وَأْتُوا الْبُيُوتَ مِنْ أَبْوَابِهَا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۔

اور یہ کوئی نیکی نہیں ھے ۔ کہ مکانات میں پچھواڑے کیطرف سے آﺅ ، بلکہ نیکی انکے لیئے ھے جو پرہیزگار ھوں اور (مکانات میں دروازوں کیطرف سے آئیں) اور اللہ سے ڈرو ۔ شاید تم کامیاب ھو جاﺅ ۔

البقرة - 189 ۔

اس آیت میں بھی دراوزوں کا ذکر موجود ھے ۔

پس ثابت ھوا کہ :

1- اول تو روایت کے پانچ راوی ضعیف و مجہول و مھمل ھیں ۔

2- یہ روایت حدیث سد الابواب سے تضاد رکھتی ھے ۔

3- یہ روایت قرآن پاک کی آیات کےخلاف ھے .

اور جو روایت قرآن کے خلاف ھو .

اسکو ویسے ھی قبول نہیں کیا جاتا .

حوالہ جات :

1- الخصال صفہہ 364 ۔

2- فہرست نجاشی صفہہ 77 ۔

و فہرست شیخ طوسی صفہہ 55 ۔

و رجال شیخ طوسی صفہہ 415 ۔

و رجال الغضائری صفہہ 40 ۔

3- الخصال جلد 2 صفہہ 365)

اور آخر میں اتمام حجت کیلیئے اور دشمنان اھلبیت (ع) کے اعتراض کو نیست و نابود کرنے کیلیئے ، معترضین کے ھی پیر و مرشد خلیفہ اول کی زبان سے اھلبیت (ع) کے گھر کے دروازے کا ثبوت پیش خدمت ھے ۔ ملاحظہ فرما لیجیئے ۔ اور اس گھر اور دروازے کی عزت ، عزمت ، شان اور مرتبہ بھی دیکھ لیجیئے ۔

جن زوات مقدسہ (مولا علی علیہ السلام و بیبی سیدہ صلوات اللہ علیہا) کا گھر کل انبیاء (ع) کے گھروں سے بھی افضل ھو - وہ مبارک و مکرم ھستیاں خود کس شان و فضیلت کی حامل ھونگی ??

امت مسلمہ کیلیئے لمحہ ء فکریہ اور مقام غور و فکر :

کائنات بھر کا اصول بھی ھے - اور اس اصول و ضابطے کو قرآن و حدیث سے مکمل تائید بھی حاصل ھے کہ : ھمیشہ مکین مکان سے اور وارث وراثت سے افضل ھوا کرتا ھے ۔ اب جن زوات مقدسہ علیہم السلام کے گھر کی برابری اور ھمسری بھی کوئی دوسرا گھر نہ کر سکے ۔ اور جنکا گھر بھی انبیاء (ع) کے گھروں سے افضل ھو - ان گھر کے مکینوں کی عزت و عظمت اور مرتبہ کا مقام کیا ھوگا ??

مخدومہ ء کونین ، بنت رسول الثقلین و مادر حسنین اور ملکہء عصمت سیدہ ء خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا اور مولائے کائنات و حیدر کرار علی ابن ابی طالب علیہ الصلوات والسلام کے گھر کا مقام و مرتبہ یہ ھے : کہ وہ کل انبیاء (ع) کے گھروں سے بھی افضل ھو -

ملاحظہ فرمائیں :

مکتب تسنن کے معتبر ترین ریفرینس امام السیوطی کے ساتھ :

امام جلال الدین عبدالرحمن بن ابی بکر السیوطی اپنی تفسیر در منثور میں آیت مجیدہ : فی بیوت ازن اللہ ان ترفع و یزکر فیھا اسمھ یسبح لہ فیھا بالغدو الاصال -

کہ ان گھروں میں جنکے متعلق حکم دیا ھے ۔ اللہ نے کہ بلند کیئے جائیں ۔ اور لیا جائے ان میں اللہ تعالی کا نام ۔ اللہ کی تسبیح بیان کرتے ھیں ان گھروں میں صبح و شام - کی تفسیر میں روایت نقل کرتے ھیں کہ :

" امام ابن مردویہ (رح) نے حضرت انس بن مالک اور حضرت بریدہ (رض) سے روایت نقل کی ھے ۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی - تو ایک آدمی اٹھا اور عرض کی ۔

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم :

یہ کون سے گھر ھیں ??

آپ (ص) نے فرمایا : انبیاء (ع) کے گھر -

حضرت ابوبکر اٹھے اور عرض کی :

(حضرت علی ء اور حضرت فاطمہ (ع) کے گھر کیطرف اشارہ کرتے ھوئے) یا رسول اللہ (ص) ۔۔۔ !! کیا یہ گھر بھی ان گھروں میں شامل ھے ??

حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

ھاں ۔۔۔۔ !! یہ گھر بھی ان گھروں میں شامل ھے -

بلکہ یہ گھر ( حضرت علی ء اور حضرت فاطمہ ء کا گھر ) ان سب گھروں میں افضل ترین ھے ۔۔۔ "

اور اسی گھر کے دروازے پر رک کے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم 6 یا 9 ماہ آیت تطہیر کی تلاوت بھی کرتے رھے ۔ حوالہ جات ملاحظہ ھوں :

ترمزی شریف جلد 2 صفہہ 486

ارحج المطالب عبیداللہ امرتسری صفہہ 58 .

تفسیر در منثور السیوطی جلد ۵ صفہہ 565 وغیرہ ۔۔۔۔

سبہان اللہ ۔۔۔۔۔۔ !!

حوالہ ۔۔۔۔ ( تفسیر قرآن )

کتاب : تفسیر در منثور - ( مکتب تسنن )

تالیف : علامہ جلال الدین السیوطی -

ترجمہ : پیر محمد کرم شاہ الازھری بھیرہ شریف -

مکتبہ : ضیاء القرآن پبلی کیشنز -

اشاعت : مئی 2010 -

ایڈیشن : سوئم -

جلد : پنجم (5)

باب : سورہ النور -

صفہہ : 143 -

سائیڈ صفہہ : بائیں سائیڈ -

سطر : 9

برادر محمد حسین کے پیج سے لی گئی پوسٹ