@جواب حاضر پیج سے منقول @

قارئین کرام، زیر نظر پوسٹ میں ایک صاحب نے بحار الانوار کی ایک عبارت سے "حسنین علیہم السلام کی معاویہ سے بیعت" کو ثابت کرنا چاہا ہے۔ یہ پوسٹ چیخ چیخ کر اپنے بنانے والے کی جہالت واضح کر رہی ہے۔ اس بے چارے کی جہالت ملاحظہ فرمائیں:
ایک: روایت کی سند نہیں، لہذا اس روایت سے حسنین علیہم السلام کی معاویہ سے بیعت ثابت کرنے کی کوشش کرنا محض جہالت ہے۔ ان بے چاروں کو سند صرف اپنے ممدوحین کو بچانے کے وقت یاد آتی ہے۔
دو: استدلال کے لیے پیش کردہ عبارت سے فورا پہلے تحریر ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے واضح طور پر معاویہ کو بتایا کہ حسین علیہ السلام کسی بھی قیمت پر معاویہ کی بیعت نہیں کریں گے۔ اس عبارت سے اس جاہل معترض کا دعویٰ باطل ہو گیا کہ "حسنین علیہم السلام نے معاویہ کی بیعت کی"
تین: جس عبارت سے استدلال کیا گیا ہے، اس سے فوراً پہلے لکھا ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے امت کی اصلاح اور اپنے چاہنے والوں کی جان بچانے کے لیے "صلح" کی تھی۔ اگر وہ صلح نہ کرتے تو معاویہ امت کے لیے حرج کرتا اور امام حسن علیہ السلام کے لوگوں کو شہید کرتا، جیسے وہ علی علیہ السلام کے بارے میں کر چکا تھا۔ لہذا اس تحریر سے "بیعت" نہیں، معاویہ کی سنگین مذمت ثابت ہوتی ہے۔
چار: جس عبارت سے استدلال کیا گیا ہے، اسی میں لکھا ہے کہ امام حسن علیہ السلام نے فرمایا کہ میں نے اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے یہ اقدام کیا ہے۔ ان الفاظ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ امام حسن علیہ السلام سے جھگڑا دین کے لیے نہیں ، بلکہ حکومت کے لیے کیا گیا، اور اپنے اس دنیاوی مقصد کے حصول کے لیے فریق مخالف ناجائز خون بہانے سے بھی گریز کرتا دکھائی نہ دیتا تھا۔ یہ بھی امام حسن علیہ السلام کے مخالفین کے لیے سنگین مذمتی الفاظ ہیں۔
پانچ: آخر میں نامعلوم راوی نے "حالت اضطرار میں بیعت" کا واضح طور پر لکھا ہے۔ اور یہ بات سنی شیعہ دونوں مانتے ہیں کہ مجبوری کی بیعت کی کوئی شرعی حیثیت نہیں ہوتی۔۔